نصیرؔ ترابی
★ نصیرؔ ترابی ★
اِنّا لِلّهِ وَاِنّا اِلَيْهِ رَاجِعُوْن. انتقال پر ملال ۔ شاعر اہلبیت جناب نصیر ترابی کا اب سے کھچ دیر پہلے مقامی اسپتال میں انتقال ہو گیا ہے دنیائے علم و ادب کا تابندہ چراغ گُل ھو گیا۔ نصیر ترابی ابنِ علامہ رشید ترابی انتقال فرما گئے۔ ایک عہد کی آواز خاموش ہو گئی۔ ابھی تو پورے بارہ مہینے بھی نہیں گزرے اور ہمارے کئی قیمتی اثاثے ہم سے جدا ہوتے جا رہے ہیں.
نصیر ترابی پندرہ جون انیس سو پینتالیس کو ریاست حیدرآباد دکن میں پیدا ہوئے۔ تقسیم ہند کے بعد پاکستان آگئے۔ انیس سو اڑسٹھ میں جامعہ کراچی سے تعلقات عامہ میں ایم اے کیا۔ انیس سو باسٹھ میں شاعری کا آغاز کیا۔ ان کا اولین مجموعۂ کلام عکس فریادی سن دو ہزار میں شائع ہوا۔ ایسٹرن فیڈرل یونین انشورنس کمپنی میں ملازمت اختیار کی اور افسر تعلقات عامہ مقرر ہوئے۔
تصانیف ترميم
عکسِ فریادی (غزلیات)
شعریات شعر و شاعری پر مباحث اور املا پر مشتمل
لاریب (نعت، منقبت، سلام)، اکادمی ادبیات پاکستان کی جانب سے علامہ اقبال ایوارڈ ملا۔
آپ ایک ایسے معروف خاندان کے چشم و چراغ تھے جو بیک وقت علمی ادبی اور مذہبی شناخت رکھتا تھا۔ آپ کے والد گرامی ﻋﺎﻟﻢ ِ ﺍﺳﻼﻡ ﮐﮯ ﻋﻈﯿﻢ ﺧﻄﯿﺐ، ﻋﺎﻟﻢ ِ ﺩﯾﻦ ﺍﻭﺭ ﺷﺎﻋﺮ ﻋﻼﻣﮧ ﺭﺷﯿﺪ ﺗﺮﺍﺑﯽ تھے جن کی ٹیلی کاسٹ ہوئی شبِ عاشور و شام غریباں کی مجالس اب بھی اکثریت کے ذہن میں محفوظ ہوں گی۔ جنابِ نصیر ترابی نے اکثر پاکستان ٹیلی وژن کے مشاعروں میں نظامت کی اور ہمیشہ ان کا بہت ہی عمدہ کلام بھی سننے میں آیا۔ وہ اردو شعراء کی صفِ اول میں ہمیشہ شامل نظر آتے تھے۔
یہ جو مجلس میں اشکباری ہے
یہاں خرچے میں نفع جاری ہے
اے محرم تری فضا کو سلام
دن ہمارا ہے شب ہماری ہے
یہ مگر ذکرِ کربلا سے کھلا
ایک غم میں بھی غمگساری ہے
حلقہِ شورِ العطش میں کہاں
وہ جو دریا کو بے قراری ہے
کون پانی کو روکنے والا
پیاس کا جبر اختیاری ہے
——قطع ——
ہمہ شب انتظارِ صبحِ وصال
شب نہیں زندگی گزاری ہے
فیصلے کا ہے ایک پل ورنہ
سوچنے کو تو عمر ساری ہے
دو قدم رہ گیا ہے خیمہِ شاہ
حر پہ یہ وقت کتنا بھاری ہے
—————————
آگئی یہ بھی منزلِ حجت
اب فقط بے زباں کی باری ہے
اب بھی ہے شانہِ علم پہ بلند
مشک غازی نے کب اتاری ہے
نصیر ترابی نے نہ صرف پاکستان بلکہ بین الاقوامی مشاعروں میں بھی نظامت کا اعزاز حاصل کیا ۔۔کافی عرصے تک کالمز بھی لکھتے رہے ۔۔مختلف یونیورسٹیز میں تحقیق کے طلبہ کی رہنمائی کرتے رہےاردو زبان اور اردو شاعری کے فروغ کے لئے باقاعدہ سیمینارز کا انعقاد کرواتے رہے۔
عالمی اخبار کو دیے گئے ایک انٹرویو میں انہوں نے فرمایا کہ شعر کہنا اور اسے شاعری قرار دینا یوں تو شہرت کا باعث بن سکتا ہے اور ممکن ہے کہ لکھنے والے کی بہت ساری کتابیں بھی چھاپ دی جائیں ۔ مگر خیال رہے کہ آپ بطورِ شاعر عرصے تک لوگوں کو یاد نہیں رہیں گے مین اسٹریم کا حصہ کبھی نہ بن پائیں گے ۔۔ادب لکھنے والوں کی جو فہرست ہوگی ان میں شمار نہیں کئے جائیں گے.
میر انیس کے مرثیے پر انکا تحقیقی مقالہ بھی اہم دستاویز ہے ۔۔مختلف شعراء کے کلام کا انتخاب بھی کئی سال شائع کرتے رہے ۔ آپ کی پہلی کتاب عکس ِ فریادی سن دو ہزار میں منظرِ عام پر آئی۔سن دو ہزار تیرہ میں شعریات کے موضوع پر بہت اہم کتاب تحریر کی جو اردو اساتذۂ کی شاعری کو سمجھنے کے لئے طلبہ اور مدرسین کے لئے بہت اہمیت کی حامل ہے۔ ۔یہی کتاب مختلف اداروں نے اپنے سلیبیس میں بھی شامل کر رکھی ہے ۔سن دوہزار سترہ میں عقیدہ نوائی “لاریب ” حمد و نعت اور منقبتوں کا مجموعہ شائع ہوا جو مخصوص حلقوں میں بہت مقبول ہے ۔
مجرئی جوہرِ قرطاس و قلم کھلتے ہیں
طبل بجتا ہے قلمرو میں عَلم کھلتے ہیں
آمدِ ماہِ محرم سے گھروں میں اپنے
درِ فردوس کی صورت درِ غم کھلتے ہیں
یہ بھی اسرارِ دعا برسرِ مجلس ہی کھلے
لب کھلیں یا نہ کھلیں بابِ کرم کھلتے ہیں
غنچہ و گُل بھی کوئی چشمِ عزا ہیں گویا
بند ہوتے ہیں جو بے آب تو نم کھلتے ہیں
شرحِ خونِ شہداء تشنہ ء مضموں ٹھہری
رنگ احساس کے الفاظ میں کم کھلتے ہیں
دل میں رستہ ہو تو اک شب کی مسافت ہے بہت
سر میں سودا ہو تو پھر نقشِ قدم کھلتے ہیں
رخصتِ حُر بھی عجب سلسلہء رخصت ہے
معنیء جستِ غزالاں پسِ رَم کھلتے ہیں
اک طرف جادہء رَے ایک طرف راہِ اجل
زیست کرنے کے سلیقے اُسی دَم کھلتے ہیں
دشتِ تنہائی ء شبیر سے تا شہرِ رسول
راہ کیا کھلتی ہے تاریخ کے خَم کھلتے ہیں
لشکرِ کم نظراں دیکھ سکوتِ اصغر
بے زبانی میں بھی اسلوبِ حشم کھلتے ہیں
ان بندھے ہاتھوں کو محتاجِ رسائی نہ سمجھ
انہیں ہاتھوں سے تو اسبابِ نعم کھلتے ہیں
ہم بھی کم مایہ نہیں ہم بھی انیسی ہیں نصیرؔ
کوئی ہم سا ہی مقابل ہو تو ہم کھلتے ہیں
جناب نصیر ترابی صاحب کا ایک نادر سلام
یہ ہے مجلسِ شہِ عاشقاں کوئی نقدِ جاں ہو تو لیکے آ
یہاں چشمِ تر کا رواج ہے ، دلِ خونچکاں ہو تو لیکے آ
یہ فضا ہے عنبر و عود کی، یہ محل ہے وردِ درود کا
یہ نمازِ عشق کا وقت ہے، کوئی خوش اذاں ہو تو لیکے آ
یہ جو اک عزا کی نشست ہے، یہ عجب دعا کا حصار ہے
کسی نارسا کو تلاش کر، کوئی بے اماں ہو تو لیکے آ
یہ عَلم ہے حق کی سبیل کا، یہ عَلم ہے اہلِ دلیل کا
کہیں اور ایسی قبیل کا، کوئی سائباں ہو تو لیکے آ
یہ حضورو غیب کے سلسلے، یہ متاعِ فکر کے مرحلے
غمِ رائیگاں کی بساط کیا، غمِ جاوداں ہو تو لیکے آ
سرِ لوحِ آب لکھا ہوا، کسی تشنہ مشک کا ماجرا
سرِ فردِ ریگ لکھی ہوئی، کوئی داستاں ہو تو لیکے آ
ترے نقشہ ہائے خیال میں، حدِ نینوا کی نظیر کا
کوئی اور خطۂ آب و گِل، تہہِ آسماں ہو تو لیکے آ
کبھی کُنجِ حُر کے قریب جا، کبھی تابہ صحنِ حبیب جا
کبھی سوئے بیتِ شبیب جا، کوئی ارمغاں ہو تو لیکے آ
مرے مدّ وجزر کی خیر ہو کہ سفر ہے دجلۂ دہر کا
کہیں مثلِ نامِ حسینؑ بھی، کوئی بادباں ہو تو لیکے آ
نہ انیس ہوں نہ دبیر ہوں، میں نصیر صرف نصیر ہوں
مرے حرفِ ظرف کو جانچنے، کوئی نکتہ داں ہو تو لے کے آ
پروردگار عالم جنت الفردوس میں جگہ دے اور لواحقین کو صبر جمیل عطا کرے
حوالہ و اقتباسات بشکریہ روما رضوی عالمی اخبار
نکل کے نرغہ شَر سے تری پناہ کی سمت
میں آ رہا ہوں، مرا انتظَار کر مولا