سید علی نقی نقوی نقن
سید علی نقی نقوی معروف نقن

سید علی نقی نقوی نقن

علامہ السید علی نقی نقوی معروف نقن صاحب
سید العلماء سید علی نقی نقوی نجفی معروف نقن صاحب برصغیر پاک و ہند کے ایک معروف عالم دین تھے

سید العلماء سید علی نقی نقوی نجفی معروف نقن صاحب
پیدائش26 رجب 1323 ھ مطابق 1905ء لکھنؤ
وفاتیکم شوال روزعید الفطر ۱۴۰۸ھ/۱۸مئی ۱۹۸۸ء
لکھنؤ.
وجۂ وفاتعلالت
مدفنلکھنؤ
رہائشلکھنؤ
قومیتبھارتی
تعلیماجتہاد
مادر علمی
لکھنؤ، نجف
پیشہمعلم
وجہِ شہرتعلمی شخصیت
مذہباسلام (شیعہ اثنا عشری)
زندگی نامہ
سید العلماء سید علی نقی نقوی نجفی معروف نقن صاحب برصغیر پاک و ہند کے ایک معروف عالم دین تھے جنھوں نے 26 رجب المرجب 1323 کو ایک علمی گھرانے میں آنکھ کھولی. ابتدائی تعلیم اپنے والد بزرگوار اور بڑے بھائی کے پاس حاصل کی اور پھر مزیدعلم حاصل کرنے کیلئے نجف اشرف تشریف لے گئے جہاں اپنی زندگی کا ایک نمایاں باب رقم کیا اور پانچ سال کی مدت میں اس دور کے بزرگ علماء سے کسب فیض کے بعد بھارت واپس آگئے . جہاں علوم اہل بیت اطہار(ع) کی تبلیغ و ترویج میں مشغول رہے . اس عرصے میں بہت سی کتابیں تصانیف کیں. آپ نے اپنی زندگی میں مختلف عناوین پر جو کتابیں یا رسالے تحریر کئے انکی تعداد 141 عدد کے قریب ہے. آخرکار یکم شوال 1408 ھ ق میں وفات پائی.
پیدائش
26 رجب 1323 ھ مطابق 1905ء لکھنؤ، بہارت کو ممتاز العلماء ابو الحسن منن صاحب کے ہاں پیدا ہوئے کہ جوشمس العلماء سید ابراہیم بن جنت مآب سید تقی بن سید العلماء سید حسین علیین مکان ابن غفران مآب دلدار علی کے فرزند تھے.
تعلیم و تربیت
ابھی آپ کی عمر ۳. ۴ سال کے درمیان تھی کہ آپ کے والد ماجد ۱۳۲۷ھ میں مع متعلقین تکمیل علوم کے لئے نجف اشرف تشریف لے گئے. آپ کی عمر ۹/برس کی تھی جب ۱۳۲۳ھ میں آپ کے والد گرامی ہندوستان واپس آئے. اس وقت تک آپ کی صرف ونحو کی ابتدائی کتابیں ختم ہوچکی تھیں. لکھنؤ واپس آ کر آپ کے والد صاحب طاب ثراہ نے آپ کی تعلیم اپنے ذمے رکھی. والد کی علالت کے زمانے میں آپ کے برادر معظم مولانا سید محمد عرف میرن صاحب آپ کو پڑھاتے تھے.
وفات
آپ نے یکم شوال روزعید الفطر ۱۴۰۸ھ/۱۸مئی ۱۹۸۸ء کو لکھنؤ میں رحلت فرمائی . اور وہیں سپر د خاک کئے گئے.
علمی صلاحیت
آپ بے پناہ علمی صلاحیتوں کے مالک تھے . آپ ایک ہی وقت میں دو مدرسوں:مدرسہ ناظمیہ اور سلطان المدارس میں پڑھتے تھے اور آپ نے مدرسہ ناظمیہ کے "فاضل" اور سلطان المدارس کے "سند الافاضل" کا ایک ہی ساتھ امتحان دیا. پھر دوسرے سال دونوں درجوں کے ضمیموں کا اور تیسرے سال "ممتاز الافاضل" اور "صدر الافاضل" کاایک ساتھ ہی امتحان دیا.

طالب علمی میں ہی سر فراز لکھنؤ،الواعظ لکھنؤ اور شیعہ لاہور میں آپ کے علمی مضامین شائع ہونے لگے تھے. ۳. ۴ کتابیں بھی عربی اور اردو میں اسی زمانے میں شائع ہوئیں. تدریس کا سلسلہ بھی جاری تھا. کچھ عرصے تک بحثیت مدرس ناظمیہ میں بھی معقولات کی تدریس کی اس دور کے شاگردوں میں مولانا محمد بشیر صاحب فاتح ٹیکسلا. علامہ سید مجتبی حسن صاحب کاموں پوری اور جناب حیات اللہ انصاری شامل تھے.

عربی ادب میں آپ کی مہارت اور فی البدیہ قصائد ومراثی لکھنے کے اسی دور میں بہت سے مظاہرے ہوئے اور عربی شعر وادب میں آپ کے اقتدار کو شام، مصر اور عراق کے علماء نے قبول کیا. اسی مہارت کو قبول کرتے ہوئے علامہ امینی نے آپ کے قصائد کے مجموعے میں سے حضرت ابو طالب کی شان میں آپ کے قصیدے کو (الغدیر) میں شامل کیا (1)اور آغائے بزرگ تہرانی طاب ثراہ نے شیخ طوسی کے حالات کو آپ ہی کے لکھے ہوئے مرثیے پر ختم کیا ہے .

اسی طرح آپ کی مزید علمی صلاحیتوں کا مشاہدہ عراق میں حصول علم کے ان ایام کی تالیفات سے کیا جا سکتا ہے جہاں آپ نے سب سے پہلے "وہابیت" کے خلاف ایک کتاب تصنیف کی جو بعد میں " کشف النقاب عن عقائد ابن عبدالوهاب "(2)کے نام سے شائع ہوئی. عراق وایران کے مشہور اہل علم نے اس کتاب کو ایک شاہکار قرار دیا. دوسری کتاب " اقالۃ العاثر فی اقامۃ الشعائر" (3)حضرت امام حسین کی عزاداری کے جواز میں اور تیسری کتاب " السیف الماضی علی عقائد الاباضی "(4)کے نام سے چار سو صفحات پر مشتمل کتاب خوارج کے رد میں لکھی.
اساتذہ
لکھنو میں جن حضرات سے آپ نے علم حاصل کیا :

ان کے والد بزرگوارممتاز العلماء ابو الحسن منن صاحب
مولانا سید محمد عرف میرن صاحب
نجم الملۃ
جناب باقر العلوم
سفر عراق اور حصول علم
سید العلماء اپنی زندگی میں دو مرتبہ عراق تشریف لے گئے . پہلی مرتبہ اپنے والد محترم کے ساتھ گئے اور دوسری مرتبہ ۱۳۴۵ھ مطابق ۱۹۲۷ء میں تکمیل علم کے لئے عراق تشریف لے گئے. آپ نے عراق میں صرف پانچ سال کا عرصہ گزارا. ان پانچ برسوں میں آپ نے فقہ واصول میں وہ ملکہ پیدا کیا کہ اس دور میں آپ کی علمی صلاحیتوں کو دیکھتے ہوئے اس زمانے کے ۳/مجتہدین یعنی "آیۃ اللہ اصفہانی"، "آیۃ اللہ نائینی" اور "آیۃ اللہ سید ضیاء الدین عراقی" نے آپ کو واضح الفاظ میں اجتہاد کے اجازے دے کر آپ کی علمی صلاحیتوں کا اعتراف کیا. علم کلام اور دفاع مذہب میں آپ کی مہارت کا لوہا "سید محسن امین عاملی"، "شیخ جواد بلاغی"، "محمد حسین کاشف الغطاء"' اور " سید عبد الحسین شرف الدین موسوی" نے مان لیا.
اجازۂ اجتہاد
درج ذیل شخصیات نے آپ کو اجازۂ اجتہاد سے نوازا:

آیۃ اللہ اصفہانی
آیۃ اللہ نائینی
آیۃ اللہ سید ضیاء الدین عراقی
آیت اللہ شیخ عبد الکر یم یزدی حائریؒ (مؤسس حوزہ علمیہ قم)
آیت اللہ محمد حسین اصفہانیؒ
آیت اللہ ابراہیم معروف بہ میراز آقائے شیرازیؒ
آیت شیخ ہادی کاشف الغطاءؒ
آیت اللہ میرزا علی یزدانیؒ
آیت اللہ شیخ محمدحسین تہرانیؒ
آیت اللہ شیخ کاظم شیرازیؒ
آیت اللہ میرزا ابو الحسن مشکینیؒ
آیت اللہ سید سبط حسن مجتہدؒ
علمی خدمات
آپ کی علمی زندگی کو تین حصوں : خطابت، شاگرد پروری، تحریر میں تقسیم کیا جا سکتا ہے .

خطابت
سید العلماء کی خطابت کا ایک خاص رنگ تھا جو عبارت آرائی وسستی نکتہ آفرینی کے بجائے علم اور تحقیق پر مبنی تھا. اور ایک گھنٹہ کی مجلس میں حقائق کے کتنے دروازے وا ہوجاتے تھے ان کی تقریر اور تحریر میں بہت کم فرق ہوتا تھا. دوسری خاص بات ان کی تقریروں میں یہ تھی کہ کہ ہرمذہب وملت کا ماننے والا اسے اطمینان قلب کے ساتھ سن سکتا تھا. اور فیض یاب ہو سکتاتھا. کسی جملہ سے کسی کی دل آزاری کا خطر ہ نہیں تھا.

شاگرد پروری
لکھنویونیورسٹی:عراق سے واپسی کے کچھ عرصہ بعد ۱۹۳۲ء میں آپ لکھنؤ یونیورسٹی کے شعبۂ عربی سے وابستہ ہوگئے اور "ستائیس برس" تک طلباء کو فیض پہنچاتے رہے.

علی گڑھ یونیورسٹی :۱۹۵۹ء میں علی گڑھ یونیورسٹی نے آپ کو شیعہ دینیات کے شعبے میں بحیثیت ریڈر مدعو کیا اور آپ علی گڑھ منتقل ہوگئے. پھرآپ شیعہ دینیات کے پروفیسر بنائے گئے. ریٹائرمنٹ کے بعد آپ نے علی گڑھ ہی میں سکونت اختیار کرلی. ۱۹۷۷ء میں لکھنؤ کے کچھ شرپسندوں نے آپ کے لکھنؤ کے مکان میں آگ لگادی. جس میں ہزاروں قیمتی کتابیں جل کر راکھ ہوگئیں. اس میں آپ کے عربی تصانیف کے غیر مطبوعہ مسودات بھی تلف ہوگئے جن کا انھیں آخر عمر تک صدمہ رہا.

تحریری خدمات
آپ نے جہاں ترویج دین کیلئے خطابت کو اختیار کیا وہاں اس کے ساتھ ساتھ اپنی علمی صلاحیتوں کو قرطاس و قلم کے حوالے بھی کیا بلکہ یوں کہنا چاہئے کہ آپ اپنی زندگی میں تبلیغ دین کی نشر و اشاعت کیلئے خطابت کی نسبت شعبہ تدریس اور تحریر کو زیادہ اہمیت کی نگاہ سے دیکھتے تھے اس کی اہمیت اور افادیت کا اندازہ آپ کی کتب کی طویل فہرست کو دیکھ کر لگایا سکتا ہے. آپ نے اپنی مصروفیات کے باوجود خاص طور پر اردو زبان میں نہایت اہم کتب، رسائل اور مضامین کا ذخیرہ آنے والی نسلوں کیلئے صدقۂ جاریہ کے عنوان سے چھوڑا اور اس کے علاوہ عربی زبان میں بھی (5)عمدہ کتابیں تصنیف کیں. آپ کے قلم سے تحریر ہونے والی کتب، رسائل اور مضامین کی کل تعداد فہرست کتابچہ سید العلماء کے مطابق 141 بیان ہوئی ہے.

اردو تحریریں
علامہ سید علی نقی نقن اعلی اللہ مقامہ کی "اردو" کتب کی فہرست :
(الف)آثار قدرت
اصول دین اور قرآن
اسلام کا پیغام پس افتادہ اقوام کے نام
امامت ائمہ اثنا عشر اور قرآن
اسلام دین عمل ہے۔
اسلامی کلچر کیا ہے ؟
اسلامی نظریہ حکومت
اسلامی تمدن
اسلام اور انسانیت
اسلام کی حکیمانہ زندگی
اسلامی عقائد
اصول اور ارکان دین
الدین القیم
اسوہ حسینی ؑ
امام حسین ؑ کی شہادت اور دستور اسلامی کی حفاظت
اسیری اہل حرم
اثبات پردہ
اشک ماتم
اتحاد بین المسلمین(درمندوں کی آوازیں)
ابو الائمہ کے تعلیمات
اگر واقعہ کربلا نہ ہوتا تو کیا ہوتا؟
استقامت علی الحق کا معیاری نمونہ
التوائے حج پر شرعی نقطہ نظر سے بحث
اسلام کی فکر حاضر میں موزونیت
امام رضاؑ
امام منتظرؑ
امامت
انصار حسینؑ
ایمان بالغیب
اسلام کا نظریہ حکومت
اسلامی قانون وراثت
(ب)بنی امیہ کی عداوت اسلام کی مختصر تاریخ
بین الاقوامی شہید اعظم حسین بن علیؑ
(پ)پانچویں امام ؑ
پیغام حسین ؑبہ عالم انسانیت(فارسی)
(ت)توحید
تقیہ
تاریخ شیعہ کا مختصر خاکہ
تاریخ تدوین حدیث
تحقیق اذان
تحفۃ العوام مطابق فتوائے سید العلماء
تراجم قرآن پاک بزبان اردو(سولہ حصے)
ترجمہ سید علی نقی بقلمہ(ھماں ص۱۱۷و۳۹۳)
تذکرہ حفاظ شیعہ (دو جلدیں)
تاجدار کعبہ
تاریخ اسلام میں واقعہ کربلا کی اہمیت
تاریخ اسلام (چار جلدوں میں)
تعزیہ داری کی مخالفت کا اصل راز
تحریف قرآن کی حقیقت
تجارت اور اسلام
تفسیر قرآن فصل الخطاب، (سات جلدوں میں)
تقریرات بحث آیۃ اللہ نائینی فی الاصول
(ث)ثنائے پروردگار (از کلام امیر المومنینؑ)
(ج)جبر واختیار
جہاد
جناب رضوان مآب
جناب جنت مآب
جناب غفران مآب
جواب رسالۃ الی صاحب ھذہ المجموعۃ من صدیقہ العلامۃ الحجۃ السید علی نقی النقوی اللکھنوی(مکتبۃ بحرالعلوم ۲۸۹)
جہاد مختار
(ح)حیات قومی
حقیقت اسلام
حقیقت صبر
حجج وبینات
حسن مجتبی ؑ
حسن عسکریؑ
حج
حجج ومعاذیر (عربی واردو)
حدیث حوض
حیات جاوداں
حسین ؑ اور قرآن
حسین ؑ اور اسلام
حضرت علی ؑ کی شخصیت علم واعتقاد کی منزل میں
حسینؑ حسین ؑ ایک تعارف
حسین ؑ اور ان کا پیغام
حسینی اقدام کا پہلا قدم
حسین کا پیغام عالم انسانیت کے نام
(خ)خدا پرستی اور مادیت کی جنگ
ختم نبوت
خمس
خدا کا ثبوت
خدااور مذہب
خدا کی معرفت
خلافت اور امامت (چھ حصے)
خطبات کربلا
خطبات سید العلماءؒ
خلافت یزید کے متعلق آزادرائیں
حضرت خدیجۃ الکبری
(د)دو اسلام پر ایک نظر
دسویں امام ؑ
دنیا آخر ت کی کھیتی ہے
دیں پناہ است حسینؑ
دعای سمات
(ذ)ذات وصفات
ذاکری کی کتاب(چار حصے)
ذوالجناح
(ر)رہنمائے ذاکری (چار حصے)
رسول خداﷺ
رسول ﷺکا مرتبہ فصاحت اور کلام رسو ل ﷺکی خاص انفرادیت
رد وہابیت
رہبر کامل
رہنمایان اسلام
روزہ
(ز)زندگی کا حکیمانہ تصور
زکوۃ
زندہ جاوید کا ماتم
زندہ سوالات
(س)سید سجادؑ
سفر نامہ عراق
سید عالم سلام اللہ علیہا
سر ابراہیمؑ واسماعیلؑ
سرور شہیداں
سفر نا مہ حج
سجدہ گاہ
سامان عزا
(ش)شہادت کبری(تبصرہ)
شادی خانہ آبادی
شہید انسانیت
شیعیت کا تعارف
شہید کربلا
شجاعت کے مثالی کارنامے
شاہ است حسین ؑ بادشاہ است حسین ؑ
شہید کربلا کا سال بہ سال ماتم
شہادت زار کربلا
شب شہادت
شہدائے کربلا(تین حصے)
شہادت حسین ؑ کے اسباب
شہید کربلا کی خاندانی خصوصیات
شہید کربلا کی کی یادگار کا آزاد ہندوستان سے مطالبہ
(ص)صنائع کردگار
صلح اور جنگ(عقل وفطرت کی روشنی میں)
صحیفہ سجادیہ کی عظمت
صادق آل محمد ؑ
صدیقہ صغری
(ض)ضرورت مذهب
(ع)عبادت اور طریق عبادت
عید غدیر
عظمت حسین ؑ
عالمی مشکلات کا حل
عدل
عزائے مظلوم
عزائے حسینؑ کی اہمیت
عد م تشدد اور اسلام
عزائے حسینؑ پر تاریخی تبصرہ
عورت اور اسلام
عشرہ محرم اور مسلمانان پاکستان
(ف)فلسفہ گریہ
فریاد مسلمانان عالم
فضائل جناب امیر المومنین ؑ کی خصوصیات
فتاوائے سید العلماء(یہ ضخیم کتاب سعودی کسٹم پر ضبط ہوگئی)
(ق)قرآن مجید کے انداز گفتگو میں معیار تہذیب ورواداری
قتیل العبرۃ
قرآن اور نظام حکومت
قرآن کے بین الاقوامی ارشادات
قانون وراثت
قاتلان حسین ؑ کا مذہب
(ک)کتاب شہید اعظم پر تبصرہ
کتاب مسئلہ حیات النبی
کتاب نبوت
کربلا کی یاد گار پیاس
کربلا کا تاریخی واقعہ مختصر یا طولانی
(گ)گیارہویں امامؑ
(ل)لارڈرسل کے ملحدانہ خیالات کی رد
لاتفسدوا فی الارض
(م)مذہب شیعہ اور تبلیغ
مسلمانوں کی حقیقی اکثریت (واقعہ کربلا کا ایک خاص پہلو)
مقتل ابو مخنف کا تحقیقی جائزہ
مباہلہ
مقدمہ مختصر بر ائے ترجمہ وحواشی قرآن
مقدمہ تفسیر قرآن
محاربہ کربلا
معرکہ کربلا
موسی کاظم ؑ
معاد
مسائل ودلائل
مجموعہ تقاریر (پانچ حصے)
مقدمہ نہج البلاغہ
مقالات سید العلماء(دو حصے)
مسلم پر سنل لا ء نا قابل تبدیل
متعہ اور اسلام
مذہب کی ضرورت
مادیت کا علمی جائزہ
مذہب اور عقل
مذہب شیعہ ایک نظر میں
مذہب باب وبہاء(دو جلدیں)
معراج انسانیت
مولود کعبہ
مقصود کعبہ
مطلوب کعبہ
مجسمہ انسانیت
مجاہدہ کربلا
مظلوم کربلا
مقصد حسینؑ
مسلمانوں کی نقلی اکثریت
معصوم شهزادی
مراکز مہم علمی شیعہ
(ن)نہج البلاغہ کا استناد
نوروز و غدیر
نماز
نظام ازدواج
نظام زندگی(چارحصے)
نظام تمدن اوراسلام
نویں امامؑ
نفس مطمئنہ
(و)
وجیزۃ الاحکام (عملیہ)
وعدہ جنت
واقعہ وفات رسول
وجود حجت
(ہ)ہمارے رسوم وقیود
ہلاکت اور شہادت
(ی)یاد اور یادگار
(6)یزید اور جنگ قسطنطنیہ
عربی تحریریں
لامہ سید علی نقی نقن اعلی اللہ مقامہ کی عربی کتب کی فہرست :
آیۃ اللہ النائینی وموقفہ العلمی بین الطائفہ(عربی)
اقالۃ العاثر فی اقامۃ الشعائر(عربی)
البیت المعمور فی عمارۃ القبور(عربی)
پیغام حسین ؑبعالم انسانیت(فارسی)
تفسیر قرآن (عربی)
تلخیص عماد الاسلام (عربی)
جواب رسالۃ الی صاحب ھذہ المجموعۃ من صدیقہ العلامۃ الحجۃ السید علی نقی النقوی اللکھنوی(مکتبۃ بحرالعلوم ۲۸۹)
جہاد مختار
الحجج والبینات (عربی)
حجج ومعاذیر (عربی واردو)
حاشیۃ الکفایہ فی مباحث الفاظ للعلامۃ المیرزا ابو الحسن المشکینی (عربی)
حول کتاب اعیان الشیعہ(عربی)
حواشی علی الرسائل(عربی)
حواشی علی المکاسب(عربی)
الراحل العظیم(عربی)
الرد القرآنیہ علی الکتاب المسیحیۃ(عربی)
رسالۃ ابی عبد اللہ الحسین ؑ(عربی)
روح الادب شرح الامامیۃ العرب(عربی)
رسالۃ من ابن حسن نجفی(مکتبۃ بحر العلوم ۱۹۹)
رسالۃ الی السید محمد صادق بحرالعلوم (للسید محمد تقی بحرالعلوم) (مکتبۃ بحرالعلوم ۱۹۹)
عدۃ رسائل للسید محمد صادق بحرالعلوم وفیھا تواریخ لوفاۃ شیخھم الطھرانی (مکتبۃ بحرالعلوم ۱۹۹)
رسالۃ فی الاجتہاد والتقلید(عربی)
رسالۃ المولف سید علی نقی ۲۷ ذی القعدہ(مکتبۃ بحرالعلوم ۲۰۳)
رسالۃ السید علی نقی للشیخ الاوردبادی(مکتبۃ بحرالعلوم ۲۰۳)
رسالۃ السید علی نقی الی الشیخ الاوردبادی(اا) (مکتبۃ بحرالعلوم ۲۰۵)
رسالۃ السید علی نقی النقوی (۲۲)(مکتبۃ بحرالعلوم ۲۰۶)
رسالہ شریفہ فی تراجم مشاھیر علماء الھند (ایضاً؛ ص۱۱۵و۳۹۲)
رسالۃ فی نیت الصوم (عربی)
زبدۃ الکلام او تلخص عماد الاسلام (عربی)
السبطان فی موقفھما(عربی)
السیف الماضی عن عقائد الاباضی (عربی)(فہرست بحرالعلوم ص۶۸)
شھادۃ بحق السید النقوی من الشیخ راضی آل یاسین(۲۴)(مکتبۃ بحرالعلوم ۲۰۶)
العقود الذھبیہ فی السلسلۃ النسبیہ (عربی اشعار)(ہماں ص۱۱۷)
السید علی نقی النقوی الکھنوی نثرا(مکتبۃ بحرالعلوم ۲۴۲)
السید علی نقی النقوی الکھنوی (مکتبۃ بحرالعلوم ۲۴۸)
الکلام علی الفقہ الرضوی(عربی)
کتاب صدیقنا العلامۃ السید علی نقی النقوی اللکھنوی الذی کتبہ لنا من الھند یعزینا فیہ بوفاۃ ابن عمنا المرحوم السید علی وصدیقنا المیرزا محمد علی الاوردبادی وکانت وفاتھما متقاربۃ فی سنۃ ۱۳۸۰(۳۹)(مکتبۃ بحرالعلوم۲۸۲)
الکراس الثالث(مکتبۃ بحرالعلوم ۲۰۰)
کشف‌النقاب‌ عن‌ عقائد ابن عبدالوہاب(عربی
لمحات حول السفور والحجاب (عربی)
المتحف العربی من الادب العصری (عربی)
المتحف العربی (عربی)
مقدمہ تفسیر القرآن (عربی)
متجمع التبثیر(عربی)
مشقت النذیر فی المسئلۃ التصویر(عربی)
مسئلۃ فی الخیر والشر(عربی)
النجعۃ فی اثبات الرجعہ(عربی)
نظرات بحاثہ فی الاخبار الثلاثہ(فہرست مکتبہ العلامہ السیدمحمدصادق بحرالعلوم ص۱۰۸)
نجف ام طف
نقد الفرائد
وجیزۃ الاحکام (عملیہ)
الوضاعون للاحادیث فی مذمۃ علی علیہ السلام ومن کان منحرفا عنہ ومبغضا(مکتبۃ بحرالعلوم ۲۸۹)(7)
حوالہ جات
(1)الغدیر ج7 ص405
(2) معجم المؤلفین . عمر کحالہ ج10 ص270؛علی فی الکتاب و السنۃ. حاج حسین شاکری ج5 ص229.
(3) الذریعہ الی تصانیف الشیعہ، بزرگ تہرانی. ج2 ص263؛معجم المطبوعات النجفیہ، محمد ہادی امینی ص88.
(4) الذریعہ الی تصانیف الشیعہ، بزرگ تہرانی، ج12 ص288 ش1938.
(5) خورشید خاور تذکرہ علماء ہند و پاک ص263. 268
(6) مجلہ شش ماہی مآب شمارہ1
(7) مجلہ شش ماہی مآب شمارہ1
مآب پر موجود کتب کتب کے صفحہ پر جانے کے لئے یہاں کلک کریں
سوشل میڈیا پر شئیر کریں: