سرکار آیۃ اللہ علامہ الشیخ محمد حسین النجفی

سرکار آیۃ اللہ علامہ الشیخ محمد حسین النجفی مد ظلہ العالی کی ولادت تقریبا” اپریل 1932ء میں بمقام جہانیاں شاہ ضلع سرگودھا کے ایک جٹ زمیندار اور علمی خانوادہ “ڈھکو” میں ھوئی۔

قریبا” پانچ سال کی عمر میں سکول میں داخلہ لیہ اور ابھی ثانوی کلاسوں تک پہنچے ھی تھے کہ 1945ء میں آپ کے والد ماجد رانا تاج الدین صاحب (جو کہ بڑے دیندار اور نیکوکار انسان تھے) انتقال کرگئے۔ ان کی دیرینہ خواھش تھی کہ آپ کو عالم دین بنائیں گے۔ لہذا ان کی اس نیک تمنا کی تکمیل آپ کی والدہ ماجدہ نے یوں کی کہ انہوں نے آپ کو مدرسہ محمدیہ جلالپور ننکیانہ ضلع سرگودھا میں داخل کرایا جہاں تدریس کے فرائض علوم شرقیہ کے فاضل مدرس آيۃ اللہ علامہ حسین بخش مرحوم جاڑا انجام دیتے تھے۔ ابتدائ کتب وھاں پڑھیں اور پھر 1947ء میں بدرھرجبانہ ضلع جھنگ میں استاد العلماء حضرت آیۃ اللہ علامہ محمد باقر صاحب قبلہ چکڑالوی کے زیر سایہ درس نظامی کا وسطائ حصہ پڑھا اور چونکہ اس وقت استاد العلماء مکقوف البصر ھو چکے تھے اور پڑھایا بھی کرتے تھے اور دوسری طرف سرکار موصوف کے شاگرد رشید جامع العقول و المنقول، حاوی الاصول و الفروع، حضرت آيۃ اللہ علامہ سید محمد یار شاہ صاحب قبلہ علی پور سے جلالپور تشریف لا چکے تھے، اور ملک میں ان کے فضل و کمال اور تدریس کی دھوم مچی ھوئ تھی، اس لیے آپ سرکار موصوف سے اجازت لے کر پھر 1949ء میں جلالپور آگۓ اور مسلسل پانچ سال تک اس فاضل جلیل سے اپنی علمی پیاس بجھائ یعنی درس نظامی کی انتہائ کتابیں جس میں تمام علوم ادبیہ و منقولات کے علاوہ معقولات میں قطبی مسلم العلوم اور اس کے بعض شروع مبیذی و شمش بازغہ وغیرہ سرکار موصوف سے پڑھیں، علاوہ بریں شرائع الاسلام اور شرح لمعہ جلدین اور معالم الاصول وغیرہ بھی انہیں سے پڑھیں۔ اس دوران 1953ء میں پنجاب یونیورسٹی سے مولوی فاضل کا امتحان امتیازی حیثیت سے پاس کیا۔ اور اپنے علمی شوق و ذوق کی تکمیل اور اپنے استاد محترم کی تحریک و تشویق پر 1954ء میں حوزہ علمیہ نجف اشرف (عراق) تشریف لے گۓ اور وھاں سطحیات پڑھنے کے لیے خصوصی درسوں کا انتظام کیا یعنی کفایہ، رسائل اور مکاسب استاد العلماء سید ابوالقاسم بہشتی سے پڑھیں اور شرح منظومہ کی جلدین جناب آقاۓ فاضل سے پڑھیں، اور علم ھیئت کی شرح چغمینی آقاۓ سید مرعشی سے پڑھیں۔ اور اسفار اربعہ کے کچھ درس آقاۓ ملا صدرا نجفی سے لیے۔ الضرض اندرون ملک اور بیرون ملک ان فنون کے پڑھنے پر زیادہ توجہ دی جن کی اپنے ملک و ملت کو زیادہ ضرورت ھے اور سطحیات سے فراغت کے بعد درس خارج شروع کیا جو کہ اصول فقہ میں سید المجتہدین آقاۓ سید جواد تبریزی اور استاذ المجتہدین آقائ مرزا محمد باقر زنجانی کے علمی درس میں شرکت کی اور فقہ میں سرکار آیت اللہ محمود شاھرودی اور مرجع اکبر آیت اللہ آقاۓ سید محسن الحکیم کی خدمت میں زانوۓ تلمز تہ کیا۔ الغرض اس دوران موصوف پڑھتے بھی رھے اور پاکستانی طلبہ کو پڑھاتے بھی رھے اور بالآخر شب و روز کی محنت شاقہ کے نتیجے میں بفضلہ تعالی وھاں کے اعلام سے اجازہ ھاۓ اجتہاد لے کر مدرسہ محمدیہ سرگودھا کی دعوت پر 1960ء میں پاکستان تشریف لاۓ اور قریبا” بارہ سال تک وھاں پرنسپل کے فرائض انجام دیے اور اس طرح سیکڑوں طلبہ علوم دینیہ کی پیاس بجھائی۔ والحمد للہ۔

یہ بات اظھر من الشمس ھے کہ مبدا فیض سے بڑی فیاضی کے ساتھ آپ کو ذھانت، فطانت اور قوت حافظہ عطا ھوئ ھے، اور اس پر ذاتی جدوجہد اور بےپناہ کدوکاوش متزاد ھے۔ یہی وجہ ھے کہ انہوں نے سالوں کے درس مہینوں میں، مہینوں کے ھفتوں میں، اور ھفتوں کے دنوں میں ختم کیے ھیں، اور جو چیز ایک بار نگاہ سے گزر گئ ھے وہ حافظے میں محفوظ ھو گئ ھے۔ چناچہ بے حساب آیت و احادیث اور اقوال کے علاوہ بے شمار عربی، فارسی اور اردو اشعار کا یاد ھونا اس کا زندہ شاھکار ھے۔ علاوہ بریں خالق مہربان سے ان کو کم نظیر ملکہ تقریر و تحریر اور تدریس عنایت ھوا ھے، چناچہ وہ ایک خاص طرز خطابت اور مخصوص طرز نگارش اور محققانہ طرز تدریس کے مالک ھیں، اندرون و بیرون ملک ان کی ھزاروں تقریریں اور اسلامیات کے ھر مو‌ضوع پر بیسیوں کتب و رسائل اور بے انداز تحریریں اس بات کی شاھد صادق ھیں۔

احساس سود و زیاں رکھتے ھیں۔ اس لیے پاکستان آتے ھی جب انہوں نے دیکھا کہ وراثت انبیاء و آئمہ طاھرین یعنی منبر رسول جہال و ضلال کے قبضے میں ھے، جنہوں نے مجالس عزا جیسی بہترین عبادت کو بدترین قسم کی تجارت بنا دیا ھے اور قوم کو عقائد میں شرک اور اعمال میں فاسق بنا دیا ھے، الا ما شاء اللہ۔ اور عامۃ الناس صحیح عقائد اور عمل کی بات سننے کے لیے بھی آمادہ نہیں ھیں تو انہوں نے پہلے 1962ء-1963ء میں “المبلغ” سرگودھا میں “اصلاح المجالس و المحافل” کے نام سے مسلسل زوردار مضامین لکھے اور پھر انہیں کتابی شکل میں شائع کیا، جس میں خصوصیت کے ساتھ چار باتیں ثابت کیں اور انہیں پر زور دیا: أ. مجالس عزا منعقد کرنا، پڑھنا اور سننا عبادت ھیں، لہذا مجالس پڑھنے پر مک مکا اور چک چکا کرنا حرام ھے۔ ب. مجالس میں غنا و سرود یعنی فلمی طرزوں میں قصائد و مراثی کا پڑھنا حرام ھے۔ ج. بدکردار اور محلوق للحیہ قسم کے لوگوں کا منبر پر آنا حرام ھے۔ د. فضائل ھوں یا مصائب، ان کے بیان کرنے میں جھوٹ کی آمیزش حرام اور گناہ کبیرہ ھے۔

ان مضامین اور رسالے کا شائع ھونا تھا کہ تاجران خون حسین علیہ السلام ذاکروں اور مقروں نے پورے ملک میں ایک طوفان بدتمیزی کھڑا کردیا۔ ھر جگہ تقریروں میں سب و شتم اور غیبت و بہتان کا ایک سیلاب آگیا اور اس وقت سے آپ کے اور اس طبقے کے درمیان جو خلیج حائل ھوئ وہ آج تک باقی ھے کم ضرور ھوئ ھے، مگر ختم نہیں ھوئ۔ اسی دوران رسالے کے بعض جوابات بھی دیے گۓ جن کا اگلے ایڈیشن میں جواب الجواب دے دیا گیا۔عظیم الشان کتب “احسن الفوائد” اور “اصول الشریعہ” کی تالیفان حالات سے گھبرانے کے بجاۓ الٹا ان حالات و واقعات نے آپ کے اصلاحی پروگراموں کے عزم و ارادے کو اور ممیز کردیا۔ چناچہ 1965ء میں آپ نے حضرت شیخ صدوق علیہ الرحمۃ کے رسالے “اعتقادیہ” کی ضخیم شرح بنام “احسن الفوائد فی شرح العقائد” شائع کی، جس میں مذھب شیعہ کے تمام صحیح اصول و عقائد سے قوم کو روشناس کرایا۔ اس پر بعض حلقوں کی جانب سے ایرادات ھوۓ اور بعض جوابی کتابیں لکھی گئیں جن کے جواب الجواب میں آپ نے 1966ء میں “اصول الشریعہ” لکھ کر ھر قسم کے قیل و قال کا سد باب کردیا اور اصل حقائق کے اثبات پر دلائل کے پہاڑ کھڑے کر دیے۔ اگرچہ مخالفین بڑے تلملاۓ اور آتش زیرپا ھوۓ مگر کوئ علمی جواب نہ دے سکے سواۓ آئیں بائیں شائیں کے جن پر اگلے ایڈیشن میں مکمل تبصرہ کرکے ھباء منشوا” کردیا۔ اور کچھ عرصے بعد سرکار علامہ مجلسی علیہ الرحمۃ کے “رسالۃ اللیلیہ” کی شرح بنام “اعتقادات امامیہ در شرح رسالۃ اللیلیہ” لکھ کر اس موضوع کو اختتام تک پہنچا دیا، اور عقائد کے معاملے میں عوام کو خودکفیل بنا دیا۔ چونکہ”اصلاح المجالس و المحافل” میں ذاکرین اور مقررین کی غلط بیانی پر سخت تنقید کی گئ تھی لہذا ان کی طرف نے اصرار تھا کہ انہیں صحیح واقعات کربلا پر مشتمل کتاب لکھ کر دی جاۓ، چناچہ آپ نے واقعات کربلا پر ایک مستند کتاب بنام “سادۃ الدارین فی مقتل الحسین (ع)” شائع کر کے قوم کے حوالے کی

اپنے قومی اصلاحی پروگراموں کی بےپناہ مصروفیات کے باوجود آپ مذھبی سرحدوں کی حفاظت اور ان کی پاسداری سے بھی غافل بھی نہیں رھے۔ چناچہ مخالفین مذھب شیعہ کے بےجا ایرادات کے جواب اور اپنے مذھب کی حقانیت پر چند لاجواب کتابیں قوم کو دیں، جیسے “اثبات الامامت”، “تحقیقات الفریقین”، “تجلیات صداقت بجواب آفتاب ھدایت”، “تنزیہہ الامانیہ عما فی رسالہ مذھب شیعہ” جن میں مخالفین کی بعض معرکۃ الآرا کتابوں کے اور ان کے سب اعتراضات کے مکمل و مدلل جواب لکھ کر مذھب حق کی حقانیت کو آشکار کیا۔ علاوہ بریں آپ نے قران مجید کی عدیم النظیر 10 جلدوں میں تفسیر بنام “فیضان الرحمن فی تفسیر القرآن” لکھ کے شیعہ تفاسیر میں بہترین اضافہ کیا۔ اس کے علاوہ “وسائل الشیعہ” کا ترجمہ و تحشیہ 20 جلدوں میں کر کے اردو میں شیعہ لٹریچر میں قابل قدر اضافہ کیا، جس کی تا حال 13 جلدیں شائع ھو چکی ھیں اور یہ مقدس سلسلہ ھنوز برابر جاری ھے۔ خدا انہیں ان کی تکمیل کی توفیق دے، آمین۔ علاوہ بریں آپ کا فقہی شاھکار بنام “قوانین الشریعہ فی فقہ الجعفریہ” یہ دو جلدوں میں شائع ھو چکا ھے اور اب اس کی تیسری طباعت ھو رھی ھے۔ زمانہ حاضرہ کے تقاضوں کے مطابق مدلل طور پر فقہ جعفریہ پیش کی گئ ھے اور ھر اختلافی مسئلے میں فقہ جعفریہ کی دوسرے اسلامی مکاتب فقہ پر برتری ثابت کی گئ ھے۔ اور 1995ء میں ان غلط رسموں پر جن میں قوم و ملت مبتلا ھے بنام “اصلاح الرسوم الظاھرہ بکلام العترۃ الطاھرہ” لکھ کر قوم پر حجت تمام کردی، اور اصلاح احوال کی کوششوں کو آخری حد تک پہنچا دیا۔ آج کل شیعوں کے خلاف لکھی گئی کتب “رسالۂ شیعہ” اور “تحفۂ حسینیہ” کا جواب “تنزیہہ الامامیہ فی جواب رسالۂ شیعہ و تحفۂ حسینیہ” رقم کررہے ہیں جو انشاء اللہ جلد چھپ کے قوم تک پہنچے گا۔

بہر حال بقول شاعرکہتا ھے کون نالۂ بلبل کو بے اثر پردےمیں گل کےلاکھ جگرچاک ھو گۓآپ کی ان کوششوں اور کاوشوں اور رفقاءِ کار علماءِ اعلام کی تقریروں اور تحریروں کا یہ اثر ہوا کہ اندرونِ ملک اور بیرونِ ملک عقیدہ و عمل میں ایک انقلاب آگیا ہے۔ اور حق و حقیقت بے نقاب ہو کر قوم کے سامنے آگئے ہیں اور بفضلہٖ تعالٰی ہر جگہ حق جُو، حق گو اور حق پرست لوگوں کا ایک قابلِ قدر طبقہ پیدا ہو چکا ہے۔ جو حق و حقیقت کا پرچم تھامے اور باطل پرستوں کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالے منزلِ مقصود کی طرف رواں دواں ہے۔ لہٰذا آپ فخر سے کہہ سکتے ہیں:گئے دن کہ تنہا تھا میں انجمن میں یہاں اب میرے رازداں اور بھی ہیںوالحمد للہ

آپ جانتے ہیں کہ صرف زبانی تبلیغ کرنا ہی کافی نہیں ہے اور نہ ہی صرف تصنیف و تالیف پر اکتفا کرنا درست ہے۔ بیشک انکی افادیت مسلم ہے مگر چراغ سے چراغ جلانے اور اس علمی شمع کو بجھنے سے بچانے کیلیئے دینی مدارس کا اجراء اور ان کا استحکام بھی اشد ضروری ہے۔ چنانچہ اسی ضرورت کے تحت انہوں نے سرگودھا شہر میں ایک بڑا علمی مدرسہ بنام جامعۂ علمیہ سلطان المدارس الاسلامیہ ربع صدی سے جاری کر رکھا ہے۔ جسمیں پانچ مدرسینِ عظام فرائضِ تدریس انجام دے رہے ہیں اور بفضلہٖ تعالٰی مدرسہ شاہراہِ ترقی پر گامزن ہے اور اپنی ایک انفرادی حیثیت رکھتا ہے۔

جتنی بار پوسٹ دیکھی گئی : 161
سوشل میڈیا پر شئیر کریں: