دسمبر 21, 2024 7:32 شام

     

 

 

 

 

 

سید حشمت علی خیراللہ پوری

سید حشمت علی خیراللہ پوری

علامہ سید حشمت علی خیراللہ پوری
نام و جائے پیدائش ، علامہ سید حشمت علی شیرازی، خیراللہ پور ضلع سیالکوٹ(موجودہ ضلع نارووال) پاکستان میں متولد ہوئے۔

مکمل نام و جائے پیدائش
علامہ سید حشمت علی شیرازی، خیراللہ پور ضلع سیالکوٹ(موجودہ ضلع نارووال) پاکستان میں متولد ہوئے۔
حالات زندگیعلامہ سید حشمت علی 1858ع (1275ھ) شیرازی، خیراللہ پور ضلع سیالکوٹ(موجودہ ضلع نارووال) پاکستان میں متولد ہوئے۔ والد کا نام حاجی سید جماعت علی تھا۔ ان کے خاندان کے بزرگ سید سعید نوروز شیرازی (مدفون اُچی رسول پور سیداں) شاۂ ایران شاہ طہماسپ کی فوجی امداد و کمک میں مغل بادشاہ ہمایوں کے ساتھ ایران سے ہندوستان منتقل ہوئے تھے۔ ہمایوں نے انہیں سیالکوٹ کے قریب مضافات میں پانچ بستیوں پر مشتمل زرعی زمین نذر کی تھی جن میں علی پور سیداں اور خیراللہ پور سیداں معروف ہیں۔ انکا شجرۂ نسب چند پشتوں کے بعد محمد مامون دیباج ابن امام جعفر صادق سے متصل ہوتا ہے۔
تعلیمسید حشمت علی نے ابتدائی تعلیم اور عربی و فارسی کی تعلیم اپنے قصبہ ہی میں مولوی عبدالرشید حنفی کے مدرسہ سے حاصل کی۔ بعد ازاں مولانا ابوالقاسم حائری کے مدرسہ محلہ شیعاں لاہور میں دینی تعلیم مکمل کی۔ اوریئنٹل کالج لاہور سے مولوی فاضل درسء نظامی کی تکمیل کے بعد ہندوستان کے مرکزء علم لکھنؤ کے مدارس میں دینی علوم کی تکمیل کی۔ حنفی علما سے اجازات کے حصول کے لیے دیوبند کے مدرسہ میں بھی علمائے دیوبند سے استفادہ کیا۔
علم کی تشنگی انہیں عراق ، ایران اور ترکیہ لے گئے جہاں اسوقت کے جید شیعہ مراجع سے فیض حاصل کیا جن میں سامرا میں مرجعء اعظم سید محمد حسن شیرازی اور نجف و کربلا میں سید محمد قزوینی (م 1306ھ)، شیخ محمد حسن مامقانی (م 1323 ھ) ، سید محمد کاظم اخوند صاحبء کفایہ (م 1329ھ) اور سید محمد حسین شھرستانی جیسے جید علمائے اعلام شامل ہیں۔ عراق میں ان کے دوسرے اساتذہ میں محقق اردکانی، مرزا عبدالوھاب مازندرانی، محقق شھرستانی اور سید محمد حسین شامل ہیں۔ مجموعی طور پر تیرہ سال عراق و ایران میں اور ایک سال قسطنطنیہ ترکیہ میں حصولء علم کے لیے قیام کیا اور اجازۂ اجتھاد اور مرتبۂ مرجعیت حاصل کیا۔ علی گڑھ یونیورسٹی کے قیام کے سلسلہ میں بھرپور معاونت کی۔
علمی خدماتعلامہ حشمت علی مجتھد کے مرتبۂ علمی پر فائز تھے اور علمء فقہ و اصول اور معقولات ، فلسفہ وغیرہ میں ماھر تھے۔ عبدالمجید سالک نے علامہ اقبال کے تذکرہ "ذکرءاقبال" میں علامہ اقبال کے علامہ شیخ عبدالعلی ھروی کے بعد علامہ حشمت علی سے کچھ فلسفیانہ اور کلامی مسائل (زمان و مکان اور مسئلۂ امامت وغیرہ) میں استفادہ کرنے کا ذکر کیا ہےاور لکھا ہے کہ وہ "فلسفے میں درخور وافی رکھتے تھے اور زمان و مکان پر ایک کتاب بھی لکھی تھی"۔[1]
علامہ شیخ محمد حسین نجفی نے اپنی کتاب احسن الفوائد فی شرح العقائد کے پیش لفظ میں شیعہ امامیہ کے جن ایک سو جلیل القدر متکلمین کا تذکرہ کیا ہے ان میں سید حشمت علی خیراللہ پوری کے بارے میں تحریر کیا ہے کہ " آپ بہت بلند مرتبہ عالمء دین و محافظء شرع ء مبین تھے۔پنجاب میں ان کی خدماتء دینیہ کی فہرست طویل ہے۔علمء کلام میں انہوں نے متعدد رسالے تصنیف فرمائے جن میں سے رسالہ معراجیہ اور غایت المرام فی ضرورت الامام خاص طور پر قابلء ذکر ہیں"[2]
تصانیفعلامہ حشمت علی خیراللہ پوری کے علمی آثار زیادہ تر محفوظ نہیں رکھے جا سکے البتہ کلامی و فلسفیانہ مسائل پر ان کے چار رسائل مطبوعہ ہیں:
1- معراجیہ در ثبوت معراج جسمانی (اردو)
2- غایت المرام فی ضرورت الامام (اردو)
3- مجنات الصدور الأمینہ فیما یتعلق بحدیث الطینہ (فارسی)
4- عرشیہ در ابطال تناسخ (فارسی)
وفاتیکم و 2 جنوری 1935ع (25 رمضان 1354ھ) کی درمیانی شب رحلت فرمائی اور امام باڑہ خیراللہ پور میں مدفون ہوئے۔
حوالہ جاتمطلع الانوار، سید مرتضٰی حسین فاضل لکھنوی
تذکرہ بے بہا، مولانا محمد حسین
ذکر اقبال ، عبدالمجید سالک ص 114 ناشر: بک کارنر، جہلم، پاکستان 2018ع
احسن الفوائد فی شرح العقائد ، دیباچہ شیخمحمد حسین نجفی ص 48 مکتبۃ السبطین سرگودھا پاکستان۔ طبع ثانی 1974 ع
علامہ کی مآب پر موجود کتبیہاں کلک کریں
سوشل میڈیا پر شئیر کریں: