مفتی سید محمد عباس شوستری (1224-1306 ھ) برصغیر پاک و ہند کے شیعہ کنتوری خاندان کے صاحب اجتہاد، فقیہ، متکلم، دنیائے ادبیات عرب کی معروف شخصیت تھے۔ آپ سید حامد حسین موسوی صاحب عبقات الانوار اور سید ناصر حسین معروف ناصر الملت کے استاد اور سید العلما آیت اللہ سید حسین علیین کے شاگرد تھے۔ 300 کے قریب کتابیں تالیف کیں۔ اس زمانے کے شیعہ حوزۂ علمیہ نجف تک آپ کی شہرت کا چرچا تھا۔ لکھنؤ میں فوت ہونے کے بعد غفران مآب کے امام باڑے میں دفن ہوئے۔
نام: سید محمد عباس موسوی
لقب: مفتی، افتخار العلما، شمس العلما، تاج العلما
نسب
آپ کا نسب 17 پشتوں کے واسطے سے حضرت امام موسی کاظم علیہ السلام سے ملتا ہے۔ آپ کے جد امجد سید محمد جعفر 1210ھ میں شوشتر سے لکھنؤ آئے۔ آیت اللہ سید نعمت اللہ جزائری آپ ہی کے خاندان کے بزرگ علما میں سے ہیں۔ آپ کے والد کا نام سید علی اکبر تھا جو نہایت منکسر اور عبادت گزار ہونے کے ساتھ ساتھ صاحب تالیف بھی تھے۔ ہندوستان میں یہ خاندان سادات نوریہ اور کنتوری خاندان کے نام سے معروف ہے۔
پیدائش
آپ کی ولادت آخر ربیع الاول 1224 ھ ہفتہ کی رات بمقام لکھنؤ (ہندوستان) ہوئی۔ شوشتر کے خاندانی رواج کے مطابق آپ کے والد سید علی اکبر نے آپ کے چچا کے نام سید عباس کے نام پر آپ کا نام سید محمد عباس رکھا۔
وفات
آپ کی تاریخ وفات ہندوستان کے شہر لکھنؤ میں 25 رجب المرجب ذکر ہوئی ہے۔ شعرا نے آپ کی وفات کی تاریخ شعری قطعات اور تجلیات تاریخ عباس کے صفحہ196 پر 1306ھ مذکور ہے۔ لیکن کتاب تجلیات تاریخ عباس میں خود سید محمد عباس نے وفات سے ایک روز پہلے حکیم سید امیر حسین صاحب کو اپنا سن 80 سال بتایا اس اعتبار سے وفات کا سن 1304 ھ بنتا ہے۔ وفات کے بعد آپ کو دریا پر غسل دیا گیا۔ نماز مغرب کے بعد عظیم الشان جم غفیر کی موجودگی میں امام باڑہ غفران مآب میں نماز جنازہ ادا کی گئی۔ مجمع میں جناب سید ابو الحسن عرف ابو صاحب اور جناب سید ابو الحسن عرف بچھن صاحب موجود تھے ابو الحسن بچھن کے اصرار پر جناب سید ابو صاحب قبلہ نے نماز جنازہ پڑھائی اور بالآخر اس گنجینۂ علم و کمال کے آفتاب کو غفران مآب کے امام باڑے میں آدھی رات کی تاریکی میں دفن کیا گیا۔
ازدواج
مفتی صاحب کی پہلی شادی میرن صاحب کی صاحب زادی سے ہوئی جو مختار الدولہ وزیر اول نواب آصف الدولہ کے خاندان سے تھیں۔ دوسری شادی حاج آغا عباس علی صاحب مرحوم اصفہانی الاصل کی دختر کے ساتھ ہوئی۔ تیسری شادی عسکری صاحب کی دختر سے ہوئی۔
اولاد
پہلی شادی سے مولانا سید محمد صاحب عرف وزیر صاحب اور حاجی سید حسن صاحب تھے ان کے علاوہ بھی متعدد اولادیں ہوئیں مگر وہ سب کمسنی میں فوت ہو گئیں ایک صاحبزادی البتہ سن رشد کو پہنچی جن کا عقد سید عبد الجواد صاحب کے ساتھ ہوا کچھ عرصہ کے بعد وہ بھی لاولد فوت ہوئیں۔ دوسری بیوی سے مولوی سید حسین صاحب صابر، مولوی سید امیر حسن صاحب اور مولوی سید نور الدین اور تین صاحبزادیاں ہوئیں دیگر اولادیں صغر سنی میں فوت ہوگئیں۔ تیسری بیوی سے دو صاحبزادے مفتی سید محمد علی صاحب اور مفتی احمد علی صاحب اور ایک صاحبزادی ہیں۔
اہم واقعات
شاہی وظیفہ مفتی صاحب کیلئے 1258 ہجری میں محمد علی شاہ مرحوم شاہ اودھ کی طرف سے علمی قدردانی کے بدلے میں مناسب وظیفہ مقرر ہوا۔ اسی زمانے میں جواہر عبقریہ تصنیف کی۔ 20 جمادی الاول 1259 ہجری کو مفتی صاٖحب کے تحریری رسالے کی ترغیب کی بدولت مدرسہ شاہی قائم ہوا اور تین سال اس میں مشغول تدریس رہے۔ 1264 ھ ہجری قضاوت کا عہدہ قبول کیا۔ محکمے کیلئے قوانین مرتب کئے۔ 1274 ھ میں واقعہ غدر پیش آیا مفتی صاحب قصبہ زید پور تشریف لے گئے اور دو تین مہینے وہاں قیام کیا۔ 1276 ھ میں آب و ہوا موافق نہ ہونے کی بنا پر کلکتہ سے چھٹی پر واپس آ گئے۔ 1298 ھ میں دوبارہ کلکتہ آئے۔ یہاں انہیں افتخار العلما اور تاج العلما کا لقب دیا گیا۔ ملکہ وکٹوریہ کی جانب سے شمس العلما کا خطاب ملا۔ 1306 ھ کے اوائل میں لکھنؤ واپس آ گئے اور وفات تک یہیں رہے۔[1]
بچپن سے ہی عبادت کا شوق طینت میں سمایا ہوا تھا اور بچپن ہی میں طولانی سجدے کرنے کی عادت رہی بعض اوقات سجدے اس قدر طولانی ہوتے کہ پسینے سے شرابور ہو جاتے۔ کبھی سجدے میں سر رکھ کر ہزار مرتبہ تک ذکر الہی کر ڈالتے۔ اپنے ہم سنوں کو عبادت کی طرف راغب کرتے۔[2] ساری زندگی اسی پر قائم رہے اور اہل محلہ شب بیداری کی مناجات سے با خبر رہے۔[3] ایک محلے کا محافظ ہندو تھا۔ اس نے رات کو کسی کے بہت زیادہ گریہ کی آواز سنی۔ صبح اہل محلہ سے کہا اس پر کیا مصیبت پڑی ہے کہ اس طرح گریہ کرتا ہے کہ دل بھر آتا ہے۔ مفتی صاحب کو جب اس واقعے کی خبر ملی تو آپ نے اپنی مناجات کو ایک نظم میں بیان کرتے ہوئے کہا: اے بار الہا! میری حالت ایسی ہو گئی ہے کہ دشمن بھی مجھ پر رحم کرتے ہیں۔ میر خورشید کے خواب میں آپ نے کہا اللہ نے مجھے دو جنتیں دی ہیں۔ میں نے ایک اپنے لیے اور دوسری اپنے احباب کیلئے رکھی تھی۔ یہ آیت: و لمن خاف مقام ربہ جنتان (اور جو اپنے پروردگار کے مقام سے ڈرتا رہا اس کے لئے دو جنتیں ہیں) اس خواب کی تصدیق کرتی ہے۔[4]آپ کی استجابت دعا زبان زد عام تھی اور آپ صاحب کرامت بھی تھے۔ اس کے چند نمونے تجلیات تاریخ عباس میں مذکور ہیں۔[5] عدل و انصاف کے بیان میں اسی قدر کافی ہے کہ حکومت کی جانب سے جرائم کی تحقیق اور اجرائے احکام کیلئے افتا کا محکمہ آپ کے سہرد تھا۔ اپنے زمانے میں جود و سخا، زہد و توکل، قناعت پسندی … جیسی دیگر اوصاف اخلاقی کا بے نظیر نمونہ تھے۔
واقعات
آپ کی زندگی کے بہت سے ایسے واقعات ہیں جو قابل تحریر ہیں لیکن یہاں چند ایک انکی زندگی کے واقعات ذکر کرتے ہیں جو انکی پاکیزہ اور طیب زندگی کی عکاسی کرتے ہیں۔لکھنؤ میں خشک سالی کی بنا پر لوگوں نے مفتی صاحب سے نماز استسقاء کی تمنا ظاہر کی مقررہ وقت پر نماز استسقا پڑھی گئی اور رحمت الہی کا نزول ہوا۔[6] لکھنؤ کے قیام کی ایک چلچلاتی دھوپ میں آپ کے گھر کے ساتھ والے چھپر میں آگ بھڑک اٹھی جسکی وجہ سے اہل خانہ گھر میں محبوس ہو کر رہ گئے۔ اس عالم میں آپ نے رو رو کر بارش برسنے کی دعا کی مستجاب ہوئی جبکہ آسمان پر کہیں بادلوں کا نام و نشان تک نہ تھا اسکے باوجود ایک بادل کا لکہ نمودار ہوا جو پھیلنے لگا اور آنا فانا برسنے لگا یہانتک برسا کہ آگ خاموش ہو گئی اور تمام اہل خانہ محفوظ رہے۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ وہ صرف اسی آگ کی جگہ پر برسا۔ اطراف پہلے کی طرح خشک ہی رہے۔ یہ واقعہ 15 صفر 1274 ھ کا ہے۔ اس واقعے کی نظم کہی جس کے ابتدائی اشعار یہ ہیں: ۔[7]
وقع الحریق ظھرة فی داری
فتحیرت فھا اولوا الابصار
میرے گھر میں آگ بھڑک اٹھی
تو گھر میں موجود صاحبان بصیرت پریشان ہو گئے
فتلھبت شعل ولم یوجد سوی
قطرات دمع بالتضرع جار
آگ کے شعلوں نے اسے لپیٹ میں لے لیا اور میرے پاس
تضرع کے آنسؤں کے قطروں کے سوا کچھ نہیں تھا
فدعوت ربی بانھا سحابة
فاجابنی بھواطل الامطار
میں نے اپنے رب سے بادلوں کی دعا کی
تو اس نے مسلسل بارش کے ساتھ مجھے جواب دیا
ایک مرتبہ کرایہ کے مکان میں رہتے تھے۔ایک روز باریش شخص اضطراب کے عالم میں آیا اور کہنے لگا کہ اس مکان میں پہلے ایک حافظ صاحب رہتے تھے وہ کہاں ہیں۔ آپ نے فرمایا کہ اب تو چند ماہ سے میں یہاں رہتا ہوں۔ اس نے کہا: نہایت ضروری ان سے کام ہے ان کا پتہ کروا دیجئے۔ جناب مفتی صاحب کو اس کے اضطراب پر بیحد رحم آیا دوسرے کمرے میں جاکر واپس آئے اور فرمایا کہ تم کسی کی تلاش نہ کرو اپنے گھر جاؤ تمہارے یہاں فرزند نرینہ پیدا ہوا ہے۔ ہر چند وہ شخص سنی المذہب تھا مگر متعجب ہو کر گھر دوڑا تو دیکھا لڑکا پیدا ہو چکا تھا۔ واپسی پر کچھ ہدیہ میں رقم لایا، کہنے لگا پہلے یہاں کے مقیم حافظ صاحب نجومی تھے کئی مرتبہ درد زہ کیلئے ان سے تعویذ لیا تھا۔ آپ نے بغیر تعویذ بتا دیا۔ یہ ہدیہ قبول کریں۔ آپ نے قبول نہ کیا۔ اس وقت کے حاضرین میں سے مرزا محمد زکی خان صاحب نے دریافت کیا۔ آپ نے جواب دیا: یہ شخص آیا اور اس کے اضطراب پر مجھے رحم آیا میں نے قرآن مجید سے تفاؤل کیا حضرت مریم کا ذکر اور حضرت عیسی کی ولادت کا ذکر برآمد ہوا: فَأَجَاءَهَا الْمَخَاضُ إِلَىٰ جِذْعِ النَّخْلَةِ قَالَتْ يَا لَيْتَنِي مِتُّ قَبْلَ هَـٰذَا وَكُنتُ نَسْيًا مَّنسِيًّا ﴿٢٣﴾فَنَادَاهَا مِن تَحْتِهَا أَلَّا تَحْزَنِي [8] یہ دیکھ کر میں نے کہدیا کہ جاؤ تمہارے یہاں لڑکا پیدا ہو چکا۔[9]
چار پانچ برس کی عمر میں قرآن اور ابتدائی تعلیم سنی مسلک کے عالم دین مولوی عبد القوی کے پاس مکمل کی۔ سریع الفہمی کی بدولت تین دن حروف تہجی پڑھنے کے بعد ہی پند نامہ سعدی پڑھا۔ ساتویں برس کے بعد مولوی عبد القدوس صاحب کے شاگرد ہوئے۔ ملا حسن صاحب شرح معلم سے مصباح شروع کی اس کے بعد مولوی قدرت علی صاحب کے شاگرد ہوئے۔ مولوی عبد العلی سے کتب معقولات و حساب و فلسفہ ہئیت و ہندسہ پڑھا۔ بارہ سال کی کم عمری میں ملا حسن حمد اللہ پر ایسے مفید حواشی لکھے جو سن کے لحاظ سے مطابقت نہیں رکھتے تھے۔ چودہ سال کی عمر میں فارغ التحصیل ہوئے اور کتب بینی کا سلسلہ شروع ہوا۔ آتھ سال کے سن میں ایک روز ایک طالب علم نے فوائد ضیائیہ معروف بہ شرح جامی کا نہایت مشکل مسئلہ دریافت کیا۔ آپ نے فورا اسے سمجھا دیا۔ طالب علم نے کہا: میں نے فوائد ضیائیہ تیرہ مرتبہ اس شہر کے علما سے پڑھی ہے لیکن کسی نے اس مسئلے کو حل نہیں کیا۔ اب میں آپ سے پڑھوں گا۔ آپ کی حاضر جوابی کا اس واقعہ سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے: آپ نے سات سال کی عمر میں سُلّم العلوم کے شارح مولوی عبد القدوس کے پاس مصباح پڑھی۔ وہ بعض اوقات اپنے مذہبی تعصب کی بنا پر گمراہی کی گفتگو بھی کرتا۔ ایک مرتبہ مفتی صاحب کی موجودگی میں کسی نے اس سے پوچھا کہ مولانا کیا بات ہے کہ ہم سنیوں سے لوگوں کو شیعہ ہوتے تو دیکھتے ہیں لیکن کبھی کسی شیعہ کو سنی ہوتے نہیں دیکھا۔ عبد القدوس نے جواب دیا۔ اہل سنت حضرات اس طیب و طاہر غذا کی مانند پاک ہیں کہ جو فضلے میں تبدیل ہو جاتے ہیں اور فضلہ غذا میں دوبارہ تبدیل نہیں ہوتا ہے۔ مفتی صاحب نے اپنے استاد سے مخاطب ہو کر کہا: آپ کی اس دلیل (یعنی کسی چیز کے فضلہ بن جانے کے بعد اس کا پاکیزگی میں تبدیل ہونا ممکن نہیں ہے) کے مطابق خلفائے ثلاثہ کہ جو پہلے کافر و ناپاک تھے پس وہ طہارت اسلام کی طرف منقلب نہیں ہوئے ہونگے۔ یہ سن کر عبد القدوس متحیر و پریشان ہو گیا۔[10] طالب علمی کے زمانے میں تحصیل علم کا اس قدر شوق تھا کہ ضروری کاموں پر بھی تحصیل علم کو ترجیح دیتے یہانتک کہ کھانے پینے اور اصلاح خط وغیرہ کو وقت کا ضیاع سمجھتے تھے۔ دسترخوان پر اگر پہلے روٹی آگئی تو سالن کا انتظار کئے بغیر اسے کھانا شروع کر دیتے تا کہ جلدی فراغت ہو جائے اور کتب بینی میں تاخیر نہ ہو۔[11]
تحصیل علم طب
مولوی عبدالقوی صاحب کی ترغیب و تشویق کی بدولت فن طب کا شوق ہوا لہذا موجز اور اقصرائی کی کتب مرزاحکیم عوض علی کے پاس پڑھیں۔ نفیسی، شرح اسباب قانون کو طبیب الملوک مرزا علی خان اور مسیح الدولہ مرزا حسن علی خان سے پڑھا۔ کچھ عرصہ تک مطب بھی کیا یہانتک کہ فن طب میں بہرہ تام حاصل ہوا۔ آخر کار طب کی تعلیم دینا شروع کی اور بہت سے شاگرد کامل طبیب کی صورت میں نکلے۔ ایک روز مطالعہ کے دوران یہ حدیث الطبیبب ضامن ولو کان حاذقا (طبیب مریض کا ضامن ہے اگرچہ وہ حاذق ہی کیوں نہ ہو) نظر سے گزری تو طبابت سے کنارہ کشی اختیار کی اور پھر ساری زندگی کسی کا علاج نہیں کیا۔ بہرحال مولوی عبدالقوی، مولوی قدرت علی اور مولوی عبدالقدوس سے کتب درسیہ ختم کیں۔ اٹھارہ برس کی عمر میں ایک قوی عالم دین بن چکے تھے۔ اسی سن تک چند رسالے بھی تالیف کئے۔[12]
فقہی دروس
اٹھارھویں برس سید العلما سید حسین بن سید دلدار علی نقوی کے شرائع الاسلام کے دروس میں اپنے برادر زادہ سید ہادی کے ساتھ شرکت شروع کی اور فقہ کی ریاض المسائل سمیت کتب پڑھیں۔ اکیسویں برس علم تجوید کی تکمیل کا شوق ہوا تو اس عہد کے مشہور قاریوں سے پڑھنے کے بعد اس فن میں کمال حاصل کیا۔[13] مفتی صاحب کو سید حسین علیین نے اجازۂ روایت اور اجازۂ اجتہاد دیا۔ یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ لکھنؤ کے ایک شخص محمد بن محد امان مفتی صاحب کے درس میں شریک ہوتے تھے۔ انہیں جاہ و عظمت اور صاحب علم کہلوانے کا شوق تھا۔ مفتی صاحب کی بعض کتب کا مسودہ بھی انکے پاس تھا۔ ان میں سے ایک نور الابصار فی مسائل الاصول والاخبار بھی تھی۔ آخرکار وہ عراق گئے تو وہاں کے مراجع عظام کو اپنے نام سے یہ دکھا کر جناب شیخ ابو محمد حسن بن حسین آل عصفور، آقا شیخ خلف بن علی بن الحسین آل عصفور، آقا حسن بن الشیخ جعفر، آقا حسن الزکی، شیخ سلیمان بن احمد بن عبد الجبارع، سید کاظم بن سید قاسم رشتی اور جناب شیخ محمد حسن نجفی صاحب جواہر الکلام سے اجازے لکھوائے۔ حقیقت میں یہ تمام اجازے بھی مفتی صاحب کے ہی ہیں چونکہ نور الابصار فی مسائل الاصول والاخبار کے اصل مؤلف مفتی سید محمد عباس ہیں۔
مفتی صاحب کے شاگردوں کی تعداد بہت زیادہ ہے ہم یہاں چند ایک اسما کے ذکر پر اکتفا کرتے ہیں:
منطق وفلسفہ وہیئت وہندسہ
صرف ونحو، معانی وبیان وعروض، ادب اور طب میں تقریبا 60 تالیفات اور متفرقات میں 14 تالیفات لکھیں۔[36] ان میں سے کئی کتب اپنی نظیر آپ کی مصداق ہیں۔
اس مقالے کو مرزا محمد ہادی کی کتاب تجلیات تاریخ عباس سے اخذ کیا گیا ہے۔
حالات فائل ڈؤنلوڈ کرنے کے لئے یہاں کلک کریں