دسمبر 22, 2024 11:02 صبح

     

 

 

 

 

 

پرو فیسر سید وزیر الحسن عابدی

پرو فیسر سید وزیر الحسن عابدی

پرو فیسر سید وزیر الحسن عابدی مرحوم

پروفیسر سید وزیر الحسن عابدی، ان علمی شخصیات میں سے ہیں جنہیں فراموش کردیا گیا، ان سے زندگی میں بھی ناروا سلوک روا رکھا گیا اور اس دنیا سے جانے کے بعد تو کون کسی کو یاد رکھتا ہے۔ زندہ قومیں تو اپنی شخصیات کو ہمیشہ یاد رکھتی ہیں۔ ایسی علمی شخصیت کسی اور ملک میں ہوتی تو فخر کے ساتھ اس کا تذکرہ کرتے۔

تعارف نامہ
سید وزیر الحسن عابدی، ان علمی شخصیات میں سے ہیں جنہیں فراموش کردیا گیا، ان سے زندگی میں بھی ناروا سلوک روا رکھا گیا اور اس دنیا سے جانے کے بعد تو کون کسی کو یاد رکھتا ہے۔ زندہ قومیں تو اپنی شخصیات کو ہمیشہ یاد رکھتی ہیں۔ ایسی علمی شخصیت کسی اور ملک میں ہوتی تو فخر کے ساتھ اس کا تذکرہ کرتے۔
29 جون وزیر الحسن عابدی مرحوم کی برسی ہے اسی مناسبت سے ہفت روزہ رضا کار اپنی روایت کو برقرار رکھے ہوئے ایک مختصر مضمون نذر قارئین کر رہا ہے۔
ولادت ، ابتدائی تعلیم اور اعلیٰ تعلیمآپ 25 دسمبر 1914ء کو ضلع بجنور میں پیدا ہوئے بجنور بدایونی میں ابتدائی تعلیم حاصل کی۔ ابتدائی تعلیم کے زمانے میں آپ کا پسندیدہ کھیل الماری میں رکھی ہوئی مولانا حالی، مولوی اسماعیل میرٹھی، مولانا شبلی، غالب اور آزاد جیسے جلیل القدر علماء کی تصانیف کی ترتیب بدلتے رہنا اور ان کتابوں کو نئے زاویوں سے الماری میں سجانا تھا۔ میٹرک کے امتحان میں پوری یونیورسٹی میں اردو میں منفرد امتیاز حاصل کیا۔ اس کے بعد آپ نے بنارس یونیورسٹی، لکھنؤ یونیورسٹی اور دہلی یونیورسٹی سے مختلف امتیازی اعزازات حاصل کیے۔
پنجاب یونیورسٹی لاہورسے ایم اے فارسی کے امتحان میں درجہ اول حاصل کیا۔ فارسی زبان و ادب سے سے محبت آپ کو ایران کھینچ لے گئی۔ آپ پاک وہند کے پہلے استاد ہیں جنہیں حکومت ایران کی طرف سے وظیفے پر فارسی علم و ادب کی اعلیٰ تعلیم اور تحقیق کے لیے منتخب کرکے تہران یونیورسٹی بھیجا گیا۔ تہران میں اپ نے لسان ادبیات کے امتحان میں پوری یونیورسٹی میں درجہ اول حاصل کیا اور قومی لسانی ادبیات کے امتحان کے چودہ مضامین میں سے تیرہ میں درجہ امتیاز حاصل کیا۔ علاوہ ازیں1954ء انجمن ادبی ایران کی رکنیت دی گئی۔ 1959ء میں پروفیسر موصوف کی علمی و ادبی خدمات کے اعتراف کے طور پر امپیریل ایرانین کا نشان سپاس درجہ اول دیا گیا۔ جسٹس ایس اے رحمان، ان دنوں وائس چانسلر پنجاب یونیورسٹی بھی تھے، ایران گئے تو عابدی صاحب سے ملے، تو انہیں پاکستان آنے کی دعوت دی۔ عابدی صاحب نے کہا کہ ان کا کتب خانہ تو ہندوستان میں ہے، اس کے بغیر تو پاکستان میں نہیں جا سکتا۔ جسٹس صاحب نے وعدہ کیا کہ آپ کا کتب خانہ بحفاظت پاکستان آ جاے گا اور ایسا ہی ہوا۔
ادبی خدمات و تصانیف و تالیفاتآپ کا تقرر لاہور میں تکلمی فارسی کی ریڈرشپ کے عہدے پر اورینٹل کالج میں کیا گیا۔ اس کے بعد آپ ہمیشہ یہی رہے۔
وزیر الحسن عابدی فارسی زبان و ادبیات کے علاوہ الٰہیات، تاریخ، فلسفہ، نفسیات، جملیات، منطق، فقہ اور حدیث کے بھی عالم تھے۔ انہوں نے غالب کی دو نایاب کتابیں باغ دو در اور گل رعنا دریافت کر کے مع مفصل حواشی و تعلیقات کے ساتھ شائع کیں۔ اس کے علاوہ غالب کے جشن صد سالہ کے موقع پر غالب کی فارسی کتابوں کو بڑی محنت سے مرتب کیا۔ ان میں غزلیات فارسی، پنج آہنگ ، افادات غالب اور سبد چین خاص طور پر اہمیت رکھتی ہیں۔ ان کا بہت تحقیقی کام اب بھی غیر مطبوعہ ہے، جو ان کے نا موافق معاشی حالات کے سبب شائع نہ ہو سکا۔ان کی دیگر تصانیف و تالیفات میں مقالات منتخب، افادات غالب، یاد داشت ہائے مولوی محمد شفیع ، سید حسین، اقبال کے شعری مآخذ مثنوی رومی میں اور کوروش اعظم شامل ہیں۔ انہوں نے کلیات خسرو بھی مرتب کی۔ حکومت ایران نے انہیں نشان سپاس کا اعزاز عطا کیا۔ اس کے علاوہ انہوں نے لا تعداد تحقیقی مضامین و مقالات تحریر کیے جو مختلف رسائل و جرائد میں شایع ہوئے۔

تصانیف و تالیفات



غالب کے چند متن تصحیح کے بعد (1969ء)
غزلیات غالب (تصحیح و تدوین، 1969ء)
دیوان ملک الشعرا ابو الفیض فیضی (مرتبہ)
کلیات امیر خسرو دہلوی (ترتیب و نظر ثانی)
اقبال کے شعری مآخذ مثنوی رومی میں
فہرست نسخہ خطی کتابخانہ حافظ محمود خان شیرانی
انتخاب دبستان عجم (دو جلدیں)
دستور زبان فارسی
یاد داشت ہائے مولوی محمد شفیع
افادات غالب
مقالات منتخب


مختلف بین الاقوامی کانفرنسوں میں آپ نے شرکت کی اور تحقیقی مقالے پڑھے۔ ان میں قابل ذکر شیراز میں بین الاقوامی سعدی حالی کانفرنس1971ء ،جشن طوسی وجشن فردوسی کانفرنس 1975ء، جشن صدسالہ غالب 1969ء سیرت کانفرنس 1976ء، بین الاقوامی امیر خسرو کانفرنس 1975ء، بین الاقوامی سید جمال الدین افغانی کانفرنس 1977ء ان کے علاوہ آپ ریڈیو اور ٹی وی پر وقتاً فوقتاً تقریروں ، مباحثوں اور علمی گفتگو میں شرکت فرماتے رہے، نیز اخبارات اور رسائل میں مضامین لکھتے۔ یہ تحقیقی مقالات پاکستان کے جرائد بلکہ ایران و تہران کے ادبی جرائد میں زیادہ شائع ہوتے تھے، جن کے فہرست بنانا ایک طویل کام ہے۔
ایران میں اردو پاکستان میں جدید فارسی متعارف کرانے میں آپ کو اولیت اور فضیلت حاصل ہے۔ نئی نسل کے قومی زبان سے زیادہ سے زیادہ دلچسپی رکھنے والے پروفیسر عابدی نے ایک بار ایک روزنامے کو انٹرویو دیتے ہوئے فرمایا کہ نئی نسل کو اردو کے ساتھ فارسی اور عربی کی تعلیم بھی دی جائے۔ آپ نے کہا کہ اردو کی ترقی کے لیے ضروری ہے اردو کے نصاب کے ساتھ بنیادی فارسی کا پرچہ اور اسلامیات کے نصاب کے ساتھ عربی کا پرچہ بھی شامل کیا جائے۔ اس موقع پر آپ نے فرمایا کہ سنائی، سعدی، عطار و رومی سے دور ہو کر ہم اپنے اقبال سے بھی دور ہو جائیں گے اور اقبال سے دور ہونے کا مطلب یہ ہوگا کہ ہم اسلامی اقدار سے دور ہوتے جا رہے ہیں۔
پروفیسر وزیر الحسن عابدی نے ایک موقع پر فرمایا ’’فارسی عربی اور اردو ( جو کہ ایک رسم الخط میں لکھی جاتی ہے) جو کہ اصل ہی ایک ہی زبان ہے۔ انہیں الگ الگ ہرگز نہیں کیا جا سکتا۔ ان میں سے کسی ایک میں دوسری کی مدد کے بغیر مہارت حاصل نہیں کی جاسکتی۔ ہر جگہ ایک دوسرے کا سہارا لینا پڑتا ہے۔ اس فرق کو محض علاقائی فرق کہا جاسکتا ہے اس سے زیادہ کچھ نہیں۔ زبان سیکھنے میں بھی ایک دوسرے کو مدد دیتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ عربی،فارسی اور اردو میں سے کوئی ایک زبان پڑھنے والے بہت جلد تینوں زبانوں کو سیکھ جاتا ہے اور اسے کسی مشکل کا سامنا نہیں کرنا پڑتا۔
پروفیسر مرحوم نے ادبیات اور ادبی تحقیق کے علاوہ دینی اور مذہبی شعبوں میں بھی کام کیا۔ انہوں نے دینی موضوعات پر مقالے لکھے اور انہیں مختلف مقامات پر پڑھا بھی۔ غالباً اس سلسلے میں آخری مقالہ امام حسن کے بارے میں بڑی محنت سے لکھا تھا۔ جس کو مختلف مواقع پر پڑھا بھی۔ 1970ء میں خطبہ غدیر ترجمہ مع عربی متن نہایت آب و تاب سے شائع ہوا۔ یہ تمام کام مرحوم کی نگرانی اور رہنمائی میں ہوا۔ آپ نے” دعا کمیل ‘‘ کا رواں سلیس اردو ترجمہ بھی کیا جسے بہت مقبولیت حاصل ہوئی۔
عابدی صاحب نے نے خود بھی سلام کہے اور اور بہت سے مسالموں کی صدارت کی۔ لاہور میں مسالموں کے انعقاد میں مرحوم نے بہت اہم رول ادا کیا۔ ایک سلام کے اشعار:-


حسنیت مطمئن تھی اگرچہ محاذ خیبر تھا کربلا میں
علی اکبر، علی اوسط، علی اصغر تھا کربلا میں
جو درس توحید اہل حق نے دیا آدم سے تابہ خاتم
وہ پورا پیغام ایک دن میں برنگ دیگر تھا کربلا میں
وہ عصر عاشور نفس کامل کی کس تجلی کا تھا نظارہ
ہر اک ملک تھا، ہر اک ولی تھا ہر اک پیغمبر تھا کربلا میں
وہ رزم میں دین حق کے آئیں وہ حسن خلق و کرم کے جوہر
جہاد شبیر ہر قدم پر جہاد اکبر تھا کربلا میں
علی کے پوتے کی وہ آخری ہچکی خدا کی ہستی پہ حرف آخر
حسین صابر کے بازوؤں میں نبی کا منبر تھا کربلا میں
یہ عزم بے شیر تھا کہ جنت میں امتحان دے کے جاے ورنہ
اگرچہ یہ بچہ ذرا مچلتا زمین پہ کوثر تھا کربلا میں
وہ غش نہ تھا کر رہے تھے سجاد حق سے حق کی رضا کا سودا
دوبارہ ہجرت کی شب تھی گویا نبی کا بستر تھا کربلا میں
رکھیں گے کیا عابدی کے آنسو ملے گا دل کو سکوں کہاں سے
ہے منزلوں دور اس جہاں سے جو پیاسا لشکر تھا کربلا میں
( معارف اسلام، لاہور، جلد، 24 شمارہ 7)


پنجاب یونیورسٹی، مین لائبریری کے چیف لائیبریرین جناب جمیل احمد رضوی صاحب اپنے ایک مضمون میں لکھتے ہیں کہ ایک شخص دو قلمی نسخے فروخت کرنا چاہتا تھا۔ ہم نے طے کیا اگر وہ اس قیمت پر دے دے تو خرید لیں گے۔ جب وہ قلمی نسخے فروخت کرنے آیا تو اس وقت پروفیسر وزیر الحسن عابدی بھی موجود تھے۔ مگر جب قلمی نسخوں کا معاملہ طے نہ پا سکا تو وہ اٹھ کر چلا گیا۔ عابدی صاحب نے مجھ سے پوچھا اگر میں اس سے قلمی نسخے خرید لوں تو آپ کو تو اعتراض نہیں ہو گا۔ میں نے کہا ہمیں کیا اعتراض ہو سکتا ہے۔ وہ فوراً آٹھ کر قلمی نسخے والے کے پیچھے چلے گئے اور اس سے منہ مانگی قیمت پر خرید لیے۔ اس وقت یہ قیمت ان کی ماہانہ تنخواہ کے برابر تھی۔ انہیں کتابوں کا بہت شوق تھا۔ میرے بڑے بھائی سید غلام علی ترمذی مرحوم نے کچھ عرصہ موصوف کی لائیبریری کی ترتیب میں معاون کے طور پر کیا ہے۔ وہ بتایا کرتے تھے سمن آباد میں انہوں نے گھر بنایا تھا اور گھر کی ہر جگہ کتابیں ہی کتابیں تھیں حتیٰ کہ باورچی خانے میں بھی کتابیں موجود تھیں۔ وہ پان خریدنے جاتے تو جس کاغذ میں پان لپٹا ہوتا تھا اسے بھی پڑھتے تھے اگر کسی کتاب کا جزو ہوتا تو اسے محفوظ کر لیتے۔
یہ بات ایک المیہ سے کم نہیں کہ اتنا بڑا فاضل محقق اپنی زندگی کے آخری حصے میں مالی مشکلات کی وجہ سے اپنے بعض نہایت قیمتی مخطوطات کو فروخت کرنے پر مجبور ہوجائے اور اس انداز میں سوچنے لگے کہ کچھ اور قیمتی کتابیں بھی فروخت کر دی جائیں۔ اس کا سبب یونیورسٹی میں رکھا گیا ناروا رویہ تھا۔ وہ جس پوسٹ پر آے تو اسی پوسٹ پر ریٹائرڈ ہوئے۔ بعد یونیورسٹی کے شعبہ تاریخ ادبیات میں ریسرچ آفیسر کی حیثیت سے کام کرتے رہے۔ آخری دم تک اس شعبہ سے وابستہ رہے۔ وہ اپنی, دین داری، ایمان داری ،محنت اور اپنے کام سے کام رکھتے تھے۔ انہیں پارٹی بازی اور جوڑ توڑ کی سیاست نہیں آتی تھی جس کا انہیں خمیازہ بھگتنا پڑا۔ عابدی صاحب کے بارے میں ڈاکٹر پروفیسر احراز نقوی مرحوم اپنی کتاب، راہ سراب کے تنہا مسافر، میں مضمون، ایک نصف انسان کی موت، میں لکھتے ہیں۔”میرا خیال ہے عابدی صاحب ہماری دنیا کے سالم انسان نہیں تھے۔ وہ دنیا کی اونچ نیچ چھل کپٹ، مکرو فریب، نہ دو دو نا چار اور نہ سولہ دونا آٹھ جانتے تھے۔ آج کی دنیا میں زندہ رہنے کے لیے انسان کو نہ جانے کیا کچھ کرنا پڑتا ہے۔ نہ جانے کیسے کیسے لبادے اوڑھنا پڑتے ہیں۔ چہرے پر چہرہ لگانا پڑتا ہے بعض اوقات دوہری شخصیت بنانا پڑتی ہے، اپنے جھوٹے وقار کی سلامتی کے لیے نہ جانے کتنے سر قلم کرنا پڑتے ہیں۔ اپنا پیٹ بھرنے کے لیے نہ جانے کتنوں کا رزق چھیننا پڑتا ہے دن کی روشنی میں اپنا منہ اجلا کرنے کے لیے رات کی سیاہی میں نہ جانے کتنی سازشوں کے جال بننا پڑتے ہیں خود اپنی فلاح و بہبود کے لیے نہ جانے کتنے خداؤں کے سامنے سنگھ گھڑیال بجانے پڑتے ہیں۔ ایسے ماحول میں عابدی صاحب بے چارے ہر دم سمٹے رہتے تھے مگر اس کے باوجود انہیں کبھی سکوں نہ مل سکا۔ہر ہرطرح سے ان کی آزادی اور کردار کشی کی گئی اور سب کچھ انہوں نے بڑے صبر و آزمائش کے ساتھ برداشت کیا۔ عابدی صاحب کو آفرین ہے۔
عابدی صاحب اکہری شخصیت کے نصف انسان تھے۔ جتنا اندر اتنا باہر، جو دل میں ہے وہی ہونٹوں پر، اگر کسی نے ان کا حق مارا تو خود اپنا دل مار کر بیٹھ گئے۔ وہ تھے سچے عالم سچے معلم۔ انہوں نے اپنے علم کی رسد کو صدقہ جاریہ کے طور پر تقسیم کیا۔ یہ نصف قسم کے انسان ہوتے ہی اللہ والے اور عشق والے ہیں۔‘‘
عکس ِ تالیفات











وفاتپروفیسر سید وزیر الحسن عابدی 29 جون 1979ء میں اس دنیا سے چل بسے اور میانی قبرستان میں آسودہ خاک ہیں۔
اللہ ان کو جنت میں اعلی مقام عطا فرمائے۔ آمین ثم آمین۔

حوالہ جات
بحوالہ : ہفت روزہ ’’رضا کار ‘‘ لاہور پاکستان ،29 جون سوموار، 2020۔
تحریر: کھوج،ترتیب۔ سید نثار علی ترمذی،
سوشل میڈیا پر شئیر کریں: