سّید حسین علیین نقوی
سید حسین علیین مکان

سّید حسین علیین نقوی

سید حسین علیین بن سید دلدار علی نقوی (غفران مآب)

سید حسین علیین مکان
سید حسین علیین مکان
مکمل نام سید حسین علیین بن سید دلدار علی نقوی (غفران مآب)
پیدائش14ربیع الثانی1211 ھ ق
لکھنؤ
وفات1273ھ ق
لکھنؤ.
مدفنلکھنؤ
رہائشلکھنؤ
تعلیماجتہاد
مذہباسلام (شیعہ اثنا عشری)
تعارف
سید حسین بن سید دلدار علی (1211 ق - 1273 ق) برصغیر پاک و ہند کے معروف مرجع تقلید تھے۔اپنے باپ اور بڑے بھائی سے علم حاصل کیا اور 17 سال کی عمر میں اجتہاد کے درجے پر فائز ہوئے ۔ لکھنؤ میں فوت ہوئے اور وہیں اپنے والد کے امام باڑے میں والد کے پاس دفن ہوئے۔

نام و نسب
نام: سید حسین بن سید دلدار علی
لقب: علیین، سید العلما
نسب: سید حسین نقوی نصيرآبادی بن سيد دلدار علی بن محمد معين بن عبد الہادی بن إبراہيم بن طالب بن مصطفی بن محمود بن إبراہيم بن جلال الدين بن زكريا بن جعفر بن تاج الدين بن نصير الدين بن عليم الدين بن علم الدين بن شرف الدين بن نجم الدين بن علی بن أبي علي بن أبی يعلی محمد بن أبي طالب حمزة بن محمد بن طاہر بن جعفر بن امام علی ہادی ملقب بالنقی بن محمد جواد بن علی رضا بن موسی كاظم بن جعفر الصادق بن محمد باقر بن علی بن حسين بن علی بن أبی طالب ع ۔[1] .
پیدائش :
سید دلدار علی خواب میں امام حسین علیہ السلام کی زیارت سے مشرف ہوئے تو امام نے آپ سے پوچھا کہ تم نے نام رکھنے میں ترتیب کا لحاظ نہیں کیا۔ سید دلدار علی نے جواب دیا میرا آخری بیٹا کبر سنی میں پیدا ہوا تھا میں سمجھا کہ شاید اس کے بعد اولاد نہ ہو لہذا میں نے اس کا نام سب سے آخری امام کے نام پر رکھا۔امام حسین علیہ السلام نے جواب دیا: ایسا نہیں ہے تمہارے یہاں ایک اور بیٹے کی ولادت ہوگی تم اس کا نام میرے نام پر رکھنا۔ [2]۔ پس اس بیٹے کی پیدائش 14 ربیع الثانی 1211 ہجری قمری[3] کو شہر لکھنؤ میں ہوئی اور اس کا نام حسین رکھا گیا۔
تعلیم و تربیت
اپنے والد دلدار علی اور بڑے بھائی سید محمد کے زیر سایہ رہ کر تعلیم و تربیت حاصل کی اور 17 سال کی عمر میں اجتہاد کے مرتبے پر فائز ہوئے۔[4] [5]

علوم دینی اپنے والد ماجد کے پاس حاصل کئے اور انکی طبیعت کی خرابی کے دواران دیگر علوم اپنے بڑے بھائی سید محمد کے پاس پڑھے۔ان علوم میں علوم عربیہ،علوم حکمیہ و فنون رسمیہ وغیرہ ان سے حاصل کئے ۔سلم العلوم اور اسکی شرح ،عماد الاسلام فی علم الکلام، شرح اربعین بہائی،اصول کی کتاب کافی،فروع دین میں کتاب منتقی الجمان وغیرہ پڑھیں۔ [6] اسی کم سنی میں ایک روز رسالہ تجزی فی الاجتہاد کی تصنیف شروع کی اور اسکے بعد رسالہ حکم ظن رکعتین اولیین لکھا لیکن کسی کو اس سے آگاہ نہیں کیا۔[7] نیز مسئلۂ تقلید اموات بھی ابتدائے عمر کی تصنیفات میں سے ہے۔ سید حسین کی مستقل اور مستبد رای کا اقرار آپ کے ہم کلاس بڑے بھائی کرتے تھے ۔[8]

دقت نظر اور علمی تبحر
سید حسین علیین کی دقت نظر اور علمی تبحر درک کرنے کیلئے یہ واقعہ ہی کافی ہے جسے بحر العلوم سید محمد حسین نے نقل کیا : جب وہ زیارات کیلئے عراق گئے تو حاج مرزا علی نقی طباطبائی کے پاس گئے انہوں نے اپنے پاس موجود حدیقہ سلطانیہ نکالی اور اسکی دور و تسلسل کی بحث طلاب کے سامنے پڑھنا شروع کی اور اس کتاب کی مدح و ثنا شروع کی تو محمد حسین نے کہا : سید حسین علیین کی ذات اس سے اجل و ارفع ہے کہ اسے اس کتاب سے پہچانا جائے کیونکہ یہ کتاب عوام کیلئے لکھی گئی تھی اور اس تالیف سے دقت نظر کا اظہار کرنا مقصود نہیں تھا۔یہ گفتگو سن کر اقا علی نقی طباطبائی بہت حیران ہوئے کہا کیا سید العلما کی اس سے بہتر تالفات بھی ہیں؟[9]

کرامت
ایک سال لکھنؤ میں باران رحمت نہیں ہوئی۔ سید حسین علیین نے با جماعت نماز استسقا پڑھائی۔ ابھی چادر کو حرکت نہیں دی تھی کہ بارش ہو گئی اور اس قدر مینہ برسا کہ ہر طرف پانی ہی پانی ہو گیا۔[10]
اولادآپ کے تین فرزند تھے:

علی حسین (متوفا 1264ھ ق): سب سے بڑے بیٹے تھے۔ علم طب میں مہارت رکھتے تھے۔
محمد تقی (1234ھ ق-1289ھ ق):منجھلے بیٹے تھے۔صاحب تصانیف و اجتہاد تھے۔ ممتاز العلما اور عضد الدین کے القاب دئے گئے۔
علی نقی :۔ملقب زبدۃ العلما و معین المؤمنین تھے۔
اساتذہ
سید دلدار علی نقوی،سید محمد بن سید دلدار علی
شاگردانسید محمد عباس شوستری
شیخ علی اظہر
سید غنی نقی
سید حسین مرعشی
مرزا حسن عظیم آبادی،عمر کے آخری دورانیے میں سید کاظم رشتی کے مصاحب ہو گئے۔
محمد بن سید باقر بخاری
سید اولاد حسین
مرزا غازی
سید انور علی
سید حامد حسین صاحب عبقات
سید مہدی شاہ کشمری
......۔[11]
کارخیر
عراق کے شہر نجف میں لوگوں کی پانی کی مشکلات حل کرنے کیلئے شیخ محمد حسن صاحب جواہر کو نہر کی تعمیر کیلئے ڈیڑھ لاکھ روپیہ شاہ اوَدھ سے لے کر دینا۔یہ نہر نہر آسف الدولہ کے نام سے مشہور تھی۔
روضہ مسلم بن عقیل، ہانی اور قنوات کی کھدائی کیلئے رقم بھجوانا۔
حضرت ابو الفضل کے روضے کی تزئین کیلئے تیس ہزار روپیہ اقا حائری کو دینا۔
ڈیڑھ لاکھ روپیہ نہر حسینی کی تعمیر کیلئے بھجوانا۔
مدرسہ سلطانیہ کی بنیاد 3جمادی الثانی1259ھ ق میں رکھنا۔ہندوستان کا سب سے پہلا دینی مدرسہ ہے۔[15]
اسکے علاوہ مساجد ومقابر کی تعمیرات،مختلف علاقوں میں عادل آئمہ کی تنصیب،ضرورتمندوں کے وظائف مقرر کرنا وغیرہ۔

وفاتآپ کی وفات 1273ھ ق[16] کو ہوئی اگرچہ بعض مقام پر تحریر کے مطابق17 صفر المظر1272ق[17] کو لکھنؤ شہر میں ہوئی۔ جنازے میں لوگوں کےاژدہام کی بنا پر لکھنؤ کے سب سے بڑے وسیع و عریض میدان پر مشتمل آصف الدولہ کے امام باڑے کا انتخاب ہوا۔بڑے بھائی سید محمد رضوان مآب نے نماز جنازہ پڑھائی۔وفات کے وقت آپ کی کا سن اکسٹھ(61) سال دو(2) ماہ اور تین(3) دن تھا۔[18] اپنے والد کی امام بارگاہ میں دفن ہوئے۔ میر علی اوسط ہندی نے آپ کی تاریخ وفات درج ذیل شعر میں بیان کی ہے :

تاریخ ولادش شنیدم خورشید کمال بودہ ای دل
تاریخ وفات او نوشتم خورشید کمال بودہ ای دل
پہلے شعر کے اعداد 1211 (سن ولادت) اور دوسرے شعر کے اعداد 1273(سن وفات) نکلتے ہیں ۔بودہ ای دل کے اعداد 62 بنتے ہیں جو سید حسین علیین کی زندگی کے سال کے مطابق ہیں۔[19]
تالیفاترسالۂ تجزی فی الاجتہاد۔
رسالہ ظن فی رکعت اولیین
مسئلۂ تقلید اموات۔مذکورہ تینوں رسالے ابتدائے جوانی کے ہیں۔
مناہج التدقیق و معارج التحقیق:نماز پنجگانہ اور اسکے احکام کے متعلق ایک ضخیم جلد ہے ۔ یہ کتاب تحقیقات انیقہ اور استدلالت دقیقہ پر مشتمل ہے۔اس کتاب کے متعلق ایران کے مجتہد سید محمد باقر محمد رشتی نے کہا تھا :فقہ استدلالی میں نظم و اسلوب ، .. کے لحاظ سے علما کی تصانیف میں ایسی کتاب نایاب ہے نیز کہیں کسی اہل ہند کی تصنیف ہونا ظاہر نہیں ہے ۔صاحب جواہر شیخ محمد حسن نے خط میں اس کتاب کے بارے میں لکھا کہ خدا کی قسم !یہ کتاب دقت کے طالبین،... کیلئے اپنے نام کی مانند ہے۔[12]
المختصر الرائق الفائق علی المبسوطات المتضمنۃ للدقائق الموسم بہ بالوجیز رائق:اپنے بیٹے کیلئے تصنیف کی جس میں احکام طہارت بیان ہوئے ہیں ۔
رسالۃ اصالۃ الطہارۃ۔
تعلیقۃ انیقۃ علی کتاب الصوم من ریاض المسائل۔نیز حاشیۂ علی کتاب الصدقہ من ریاض المسائل ہے ۔
تعلیقۃ علی کتاب الہبۃ من ریاض المسائل۔
رسالہ وسیلۃالنجاۃ (فارسی،تا آخر مبحث نبوت)۔
روضۃ الاحکام فی مسائل الحلال و الحرام ۔ فارسی زبان میں فقہ کے چند ابواب نماز،روزہ و میراث میں چند جلدیں ہیں۔
رسالۃ مبسوطہ در احکام میراث (عربی)۔
افادات حسینیہ ملقب فوائد(عربی):تصحیح عقائد اور صفات باری تعالی کی عینیت کی تحقیق ہے جو شیخ احمد احسائی، سید کاظم رشتی اور انکے پیروکاروں کے اقوال مخترعہ کے رد میں لکھی گئی ۔
حدیقۂ سلطانیہ در مسائل ایمانیہ: اصول دین اور فروع دین پر مشتمل کتاب ہے جسے سلطان امجد علی شاہ کی فرمائش پر تصنیف کیا۔
خزینۂ ایمانیہ کے نام سے حدیقہ سلطانیہ کا اردو زبان میں ترجمہ ہوا جسے ملتان(پاکستان) کے مولانا سید گلاب علی شاہ نقوی (مرحوم) نے کیا اور وہ مکتبہ کاظمیہ شیعہ میانی ملتان سے شائع ہوا۔
تفسیر سورت حمد۔
سورہ بقرہ و توحید کی چند آیات کی تفسیر۔
تفسیر سورہ ہل اتی علی الانسان حین من الدہر۔
تفسیر آیت کنتم خیر امت ...: رد فخر الدین رازی میں ہے۔[13]
تعلیقات علی شرح الہدایہ صدر شیرازی
رسالہ تبحر العقول فی تحقیق النسبہ بین الحقیقۃ و المنقو۔
......۔[14]
حوالہ جات
محسن امین عاملی ،اعیان الشیعہ6/425۔
محمد عباس جزائری،اوراق الذہب ،18،موسسہ تراث االشیعہ۔
محسن امین عاملی ،اعیان الشیعہ6/12،ناشر : دار التعارف للمطبوعات - بيروت - لبنان
محسن امین عاملی ،اعیان الشیعہ/12
احمد لکھنوی،ورثۃ الانبیاء با ہمراہ تذکرہ العلماء،ص105،مؤسسہ کتاب شناسی شیعہ قم۔
احمد لکھنوی،ورثۃ الانبیاء با ہمراہ تذکرہ العلماء،ص105،مؤسسہ کتاب شناسی شیعہ قم۔
ورثۃ الانبیاء105
احمد لکھنوی،ورثۃ الانبیاء،ص108،مؤسسہ کتاب شناسی شیعہ قم۔
سید احمد لکھنوی،ورثۃ الانبیاء با ہمراہ تذکرۃ العلما،ص204/205 ۔
سید گلاب علی شاہ نقوی، خزینہ ایمانیہ ترجمہ حدیقۂ سلطانیہ ص441۔
سید احمد لکھنوی،ورثۃ الانبیاء با ہمراہ تذکرۃ العلما،ص209/210 ۔
سید اعجاز حسین،کشف الحجب و الاستار،556، مكتبۃ آيۃ الله العظمى المرعشي النجفي - قم
سید مہدی ،ورثۃ الانبیاء با ہمراہ تذکرۃ العلما،374 تا 378۔
سید احمد لکھنوی،ورثہ الانبیاء با ہمراہ تذکرۃ العلماء،205/206۔
سید محسن امین عاملی ،اعیان الشیعہ،6/12۔
سید احمد لکھنوی،ورثۃ الانبیاء،211۔
سید گلاب علی شاہ نقوی، خزینہ ایمانیہ ترجمہ حدیقۂ سلطانیہ ص441،مکتبہ کاظمیہ شیعہ میانی ملتان
ایضا۔
سید احمد لکھنوی،ورثۃ الانبیاء،211۔
سوشل میڈیا پر شئیر کریں: