سّید محمد بن دلدار علی نقوی
سید محمد بن دلدار علی نقوی ۔ سلطان العلماء اور رضوان مآب
سید محمد بن دلدار علی نقوی ۔ سلطان العلماء اور رضوان مآب | |
---|---|
پیدائش | 17 صفر 1199 ھ لکھنؤ |
وفات | ربیع الاول 1284ہجری 22 |
مدفن | لکھنؤ |
رہائش | لکھنؤ |
تعلیم | اجتہاد |
مذہب | اسلام (شیعہ اثنا عشری) |
تعارف | سید محمد بن دلدار علی نقوی (متوفی 1284 ھ) سلطان العلماء اور رضوان مآب کے لقب سے جانے جاتے تھے۔ آپ صاحب اجتہاد تھے۔ تالیفات میں تحفۂ اثنا عشریہ کے بعض ابواب کے مدلل جوابات سمیت 24 کے قریب آثار چھوڑے۔ 1284 ھ میں فوت ہوئے اور لکھنؤ میں اپنے والد کے تعمیر کئے ہوئے امام باڑے میں دفن ہوئے۔ آپ کے والد کا نام سید دلدار علی نقوی تھا جو امام علی نقی کے بیٹے اور امام حسن عسکری کے بھائی جعفر کذاب کی اولاد سے تھے۔ آپ کا خاندان نواب اور شجاع افراد میں سے گنا جاتا تھا۔ آپ کے اجداد میں نجم الدین سب سے پہلے ایران کے شہر سبزوار سے ہندوستان آئے اور جای عیش نامی جگہ پر قیام کیا جو لکھنؤ کے قریب واقع ہے۔[1] بزرگان میں سے سید زکریا نے تباک پور یا پتاک پور کو اپنے قبضے میں لیا تو اس کا نام اپنے جد نصیر الدین کے نام کی مناسبت سے نصیر آباد رکھ دیا۔ اسی مناسبت سے اس خاندان کی علمی شخصیات میں نصیر آبادی لکھا جاتا ہے۔ |
نام و نسب | سید محمد بن دلدار علی نقوی کی ولادت 1199 ھ کے ماہ صفر کی 17 تاریخ کو لکھنؤ میں ہوئی۔ تعلیم و تربیت والد کے زیر سایہ ہوئی۔ سید دلدار علی نقوی کو خواب میں امام زمانہ کی زیارت ہوئی تو امام نے سید دلدار علی سے کہا: ہم نے تمہارے بیٹے کو اپنی حضانت میں لیا ہے۔[2] |
تعلیم و تربیت | سید محمد بن سید دلدار نقوی نے علوم عقلیہ و نقلیہ اپنے والد سید دلدار علی سے حاصل کئے۔ 19 سال کی عمر میں آپ کے والد نے آپ کیلئے اجازہ تحریر کیا اگرچہ فضل و کمال کی منزلیں آپ ابتدائے جوانی میں طے کر چکے تھے۔ یہ اجازہ 1218 ھ میں آپ کے والد نے تحریر کیا۔[3] |
اولاد | سید محمد باقر (متولد 1234 ھ): بادشاہ کی طرف سے عدالت دیوان عشری کے عہدے پر فائز رہے اور منصف الدولہ اور شریف الملک کا لقب پایا۔ تشیید مبانی الایمان نامی کتاب مولوی حیدر علی فیض آبادی کی کتاب ازالۃ العین کے رد میں لکھی۔[4] اور دیگر رسائل تصنیف کئے۔[5] سید صادق: یہ فرزند عین جوانی میں 4 رجب 1258 ھ کو فوت ہوئے۔ انکی معروف ترین تالیف تائید المسلمین در رد نصاری ودیگر رسائل ہیں۔[6] سید مرتضی ملقب خلاصہ العلما: عالم جلیل تھے جنہوں نے علوم دینی اپنے والد اور بھائی سید صادق سے حاصل کئے اور درجۂ اجتہاد پر فائز ہوئے۔ 17 رمضان 1276 ھ کو والد کی زندگی میں فوت ہوئے۔ سید عبد اللہ : خلاصہ الاعمال (اس علاقے سے متعلق عورتوں کی عبادات کے متعلق رسالہ تحریر کیا، عربی میں غلات کے رد میں ایک نا تمام رسالہ اور ادعیہ کے موضوع میں سبیل النجاۃ تالیف کیا۔[7] سید بندہ حسین سید علی اکبر سید علی محمد سید غلام حسین سید محمد علی وفات: 22 ربیع الاول 1284 ہجری قمری، جمعرات کی رات کے آخری پہر، آپ کی وفات ذکر کی جاتی ہے۔ دوپہر کے وقت تشیع جنازہ کے بعد آپ کو غفران مآب کی امام بارگاہ میں دفن کیا گیا۔[8] |
اساتذہ | آیت اللہ سید دلدار علی نقوی (غفران مآب) |
شاگردان | سید محمد مرزا محمد فیض آبادی مولوی مشرف علی سید باقر شاہ بخاری سید دیدار جہان مرزا محمد مہدی لکھنوی کشمیری نے نجوم السما میں ان کے علاوہ چند اور افراد کے نام بھی شاگردوں میں ذکر کئے ہیں۔[11] |
وفات | وفات: 22 ربیع الاول 1284 ہجری قمری، جمعرات کی رات کے آخری پہر، آپ کی وفات ذکر کی جاتی ہے۔ دوپہر کے وقت تشیع جنازہ کے بعد آپ کو غفران مآب کی امام بارگاہ میں دفن کیا گیا۔[8] |
تالیفات | سید محمد بن سید دلدار علی نقوی نے مجموعی طور پر 24 کے قریب آثار چھوڑے مثلا: البوارق الموبقہ: تحفہ اثنا عشریہ کے باب امامت کا جواب ہے۔ سیف ماسح: وضو میں پاوں کے مسح کے اثبات میں لکھا جو بادشاہ عالمگیر کے استاد عبد العزیز ماضی کا جواب ہے۔ مولوی حمد اللہ کی شرح سُلم پر حواشی۔ اصل الاصول: سید دلدار کے شاگرد میر مرتضی کے جواب میں لکھا جس نے اخباریت کی طرف رجحان کی بنا پر اساس الاصول پر اعتراضات کئے تھے۔ سید علی طباطبائی کی شرح الصغیر کے فقہی مسائل میں متفرع حواشی۔ یہ تمام کتابیں سید دلدار علی نقوی (متوفا ۱۲۳۵ ھ) کی زندگی میں لکھیں یعنی ۳۶ سال کی کم عمر کی تصنیفات ہیں۔ صمصام قاطع: مخالفین کے مذہب کے رد اور انکی اہل بیت سے دشمنی کے اثبات کے بیان لکھی نیز اس میں تعزیہ اور ضریح سید الشہدا کی شبیہ کے جواز کا بیان ہے ۔ طعن الرماح: فدک اور قرطاس کے قصے کے متعلق لکھی ہے جو تحفہ اثنا عشریہ کے بعض مطاعن کا جواب ہے۔ متعہ کے جواز میں رسالہ ضربت حیدریہ[9]: اپنے معاصرین کی کتاب شوکت عمریہ کا جواب ہے۔ یہ کتاب نظیر نہیں رکھتی ہے۔ ثمرۃ الخلافۃ شرح زبدۃ الاصول: اصول فقہ میں شیخ بہاء الدین کی تالیف کی شرح لیکن نا مکمل ہے۔ .......۔[10] |
حوالہ جات | محسن امین عاملی، اعیان الشیعہ6/425۔ سید احمد لکھنوی، ورثۃ الانبیاء، ص 57، مؤسسہ کتاب شناسی شیعہ قم۔ سید مہدی بن نجف عظیم آبادی، تذکرۃ العلما،ص 330/331، مؤسسہ کتاب شناسی شیعہ قم۔ بزرگ تہرانی ،الذریعہ الی تصانیف الشیعہ، 4/192/957، دار الاضواء بیروت لبنان۔ سید مہدی بن نجف عظیم آبادی، تذکرۃ العلماء، 343۔ سید مہدی بن نجف عظیم آبادی، تذکرۃ العلماء، 343۔ سید مہدی بن نجف عظیم آبادی، تذکرۃ العلماء، 343۔ مرزا مہدی لکھنوی، نجوم السما ۱/۲۷۵،۲۷۶، مکتبہ بصیرتی قم۔ ضربۃ الحیدریۃ لکسر الشوکۃ العمریہ .... سید مہدی بن نجف، تذکرۃ العلما، 334تا338۔ مرزا ،مہدی لکھنوی،نجوم السما،۱/۲۸۰،۲۸۱ |