سّید دلدار علی (غفران مآب)
سید دلدار علی نقوی (غفران مآب)

سّید دلدار علی (غفران مآب)

علامہ السّید دلدار علی نقوی (غفران مآب)
سید دلدار علی نقوی (غفران مآب) برصغیر پاک و ہند کے معروف ترین شیعہ عالم دین ، مرجع اور مجتہد اعظم کی حیثیت سے پہچانے جاتے ہیں

سید دلدار علی نقوی (غفران مآب)
پیدائش17 ربیع الثانی 1166ھ
نصیر آباد
وفات19 رجب1235ھ
لکھنؤ.
وجۂ وفاتعلالت
مدفنلکھنؤ
رہائشلکھنؤ
تعلیماجتہاد
مادر علمی
لکھنؤ، نجف ،مشہد
وجہِ شہرتعلمی شخصیت
مذہباسلام (شیعہ اثنا عشری)
تعارف
سید دلدار علی نقوی (غفران مآب) برصغیر پاک و ہند کے معروف ترین شیعہ عالم دین ، مرجع اور مجتہد اعظم کی حیثیت سے پہچانے جاتے ہیں ۔غفران مآب آپ کے معروف ترین القاب میں سے ہے نیز آپ کو مجدد الشریعہ کے لقب سے بھی نوازا گیا ۔آپ نے بارھویں صدی کی آخری چار دہائیوں اور تیرھویں صدی کی ابتدائی دہائیوں کی بہاریں دیکھیں۔ پاک و ہند میں مذہب اثنا عشریہ کو مضبوط بنیادیں فراہم کرنے والے علما میں سے سر فہرست شمار کیا جاتا ہے ۔آپ کو پاک و ہند میں علم اصول فقہ کے مکتب کا بانی اور بنیاد گزار مانا جاتا ہے ۔ دیگر تالیفوں کے ساتھ ساتھ علم اصول فقہ میں بھی اساس الاصول کے نام سے آپ کی تصنیف موجود ہے ۔پاک و ہند میں آپ نے مذہب حقہ کی ترویج کیلئے جہاں دن رات ایک کیا وہاں مذہب کے حقہ کے دفاع میں تالیفیں لکھ کر اس مذہب کو محکم بنیادیں فراہم کیں اور مذہب اثنا عشریہ کی حقانیت کو پاک و ہند میں دوام بخشا ۔یہانتکہ سید دلدار علی سمیت اس دور کے علما کی دینی خدمات اور مذہب اہل بیت کی ترویجی خدمات کا اعتراف کرتے ہوئے تحفۂ اثنا عشریہ کے مقدمے میں تحفہ کے سبب تالیف بیان کرتے ہوئے مولوی عبد العزیز نے کہا: ہم ایسے دور سے گزر رہے ہیں کہ جس میں اثنا عشریہ کا غلغلہ اور شہرہ اتنا بڑھ گیا ہے کہ بمشکل کوئی ایسا گھر ہوگا جس میں کوئی نہ کوئی یہ مذہب اختیار نہ کر چکا ہو یا اس سے متاثر نہ ہوا ہو۔
اجداد
آپ حضرت امام حسن عسکری کے بیٹے اور حضرت امام زمانہ علیہم السلام کے بھائی جعفر کی اولاد میں سے ہیں جنہیں امامت کے جھوٹے دعوے کی نسبت سے کذاب اور بعد میں توبہ کرنے کی وجہ سے تواب کہا گیا ۔ آپ کا سلسلہ نسب یوں مذکور ہوا ہے :

سيد دلدار علی بن محمد معين بن عبد الہادی بن إبراہيم بن طالب بن مصطفی بن محمود بن إبراہيم بن جلال الدين بن زكريا بن جعفر بن تاج الدين بن نصير الدين بن عليم الدين بن علم الدين بن شرف الدين بن نجم الدين بن علی بن أبي علي بن أبی يعلی محمد بن أبي طالب حمزة بن محمد بن الطاہر بن جعفر ابن امام علی الہادی ملقب بالنقی بن محمد جواد بن علی رضا بن موسی كاظم بن جعفر الصادق بن محمد باقر بن علی بنحسين بن علی بن أبی طالب ع رضوی نصيرآبادی .(1)
آپ کے اباؤ اجداد امراء، نواب اور شجاع افراد مانے جاتے تھے ۔ آپ کے اجداد میں سے نجم الدین سب سے پہلے وہ شخص ہیں جو ایران کے شہر سبزوار سے سپہ سالار مسعود غازی کی مدد کیلئے ہندوستان آئے جنکے توسط سے ادیانگر نامی قلعہ فتح ہوا اور انہوں نے لکھنؤ سے 50 کلومیٹر کے فاصلے پر جای عیش نامی جگہ کو اپنا مسکن قرار دیا جو بعد جایس کے نام سے مشہور ہو گئی ۔مسعود غازی سلطان محمود غزنوی کے جرنیلوں میں سے تھا .(2)

آپ کے اجداد میں سے سید زکریا نے تباک پور یا پتاک پور کو اپنے قبضے میں لیا تو اس کا نام اپنے جد نصیر الدین کے نام کی مناسبت سے نصیر آباد رکھ دیا ۔
ولادت
آپ کی تاریخ ولادت کا سن 1166 ھ ق مذکور ہے لیکن تاریخ اور مہینہ مذکور نہیں ہے اگرچہ ورثۃ الانبیاء (3)میں دی گئی تصویر کے مطابق تاریخ ولادت 17 ربیع الثانی 1166ھ ہے.(واللہ اعلم بالصواب)(4) ۔ آپ کی ولادت کے موقع پر موجود شخص کے بیان کے مطابق آپ جمعہ کے روز پیدا ہوئے اور آپکی ولادت کے موقع پر نور ساطع کا مشاہدہ کیا گیا (5)۔آپ کا پیدائشی شہر نصیر آباد ہے ۔ (6)آپ کی مقام ولادت لکھنؤ سے تین منزل کی مسافت پر جائس اور نصیر آباد واقع ہے۔(7)

آپکا سن وفات 1235 ثابت ہے اور وفات کے وقت آپ کا سن 69 سال ہونا چاہئے لیکن مشہور ہے کہ آپ 74 سال کی عمر کر کے فوت ہوئے۔ اس لحاظ سے آپ کا سن ولادت 1166 ھ نہیں بلکہ 1161ھ کے لگ بھگ ہونا چاہئے۔(8)
ذکاوت وذہانت
علوم عقلیہ سے دلچسپی کا یہ عالَم تھا کہ جہاں بھی کسی مشہورعلم منطق کے عالم کی خبر ملتی اسکے پاس چلے جاتے اور اس سے بحث و مباحثہ کرتے ۔اسی سبب سے مختلف مقامات کا سفر کیا۔

علوم عقلیہ کے متبحر نہایت متعصب اور صوفی المسلک سنی مولوی عبد العلی سے ملاقات کیلئے شاہجہان پور گئے اور وہاں مولوی عبد العلی نے قضیہ شرطیہ کی بحث کے متعلق مولوی حمد اللہ کے بارے میں اعتراض کیا ۔اس اعتراض کا جواب شافی و وافی اسکے دو شاگردوں مولوی صبغۃ اللہ اور دوسرے کا نام یاد نہیں رہا کے سامنے دیا۔ یہ بات ان سالوں کے مدرسہ کے طلاب کے درمیان مشہور تھی۔
دہلی کے شاہجہان آباد کی مسجد جامع میں مولوی حسن بیٹھا تھا۔ مولوی ممدوح نے ملا شیرازی شرح ہدایہ الحکمہ پر تعلیقہ لگایا جس میں اس نے جزو کی ادلہ باطلہ ذکر کیں۔ آپ نے مولوی حسن کے سامنے ان میں سے ایک دلیل پر اعتراض کیا ۔لیکن مولوی حسن اس کا جواب دینے سے قاصر رہا۔
فقہی مسائل کی باریک بینیوں کو درک کرنے کی استعداد یوں تو شروع سے ہی آپ کی ذات میں پائی جاتی تھی ۔جب عراق و ایران زیارات عالیہ سے مشرف ہونے کیلئے گئے تو وہاں آیات عظام کی موجودگی میں ایسے واقعات پیش آئے جس سے آپ کی یہ خصوصیت آیات عظام کیلئے واضح ہو گئی ۔مثلا:


ایک روز صاحب ریاض المسائل آیت اللہ سید علی طباطبائی نماز میں رکوع کے اضافے سے بطلان نماز کے بارے میں گفتگو کر رہے تھے کہ آپ نے سوال کیا یہاں رکوع سے معنی مصدری مراد ہے یا معنی حاصل مصدر مراد ہے ؟حاضرین اس سوال کو نہ سمجھے اور متعجب ہوئے۔ آپ نے اپنے سوال کی دونوں شقوں کی وضاحت کی۔آیت اللہ سید علی طباطبائی نے آپ کی تعریف کی اور معنائے رکوع کی وضاحت فرمائی۔
ایک روز آیت اللہ سید علی طباطبائی نے عورت کے مرد کے برابر ہونے یا مرد کے سامنے موجودگی کی صورت میں نماز کے جائز نہ ہونے کا مسئلہ بیان کیا اور کہا کہ بعض فقہا نے حضرت عائشہ کی حدیث سے نماز کے جائز ہونے پر استدلال کیا ہے(9) کہ جس کا مضمون یہ ہے " حضرت عائشہ حالت حیض میں رسول خدا کے سامنے اس طرح پاؤں پھیلا کر لیٹی ہوئی تھیں کہ رسول اللہ جب سجدے میں تشریف لے جاتے تو پہلے آپؐ ان کے پاؤں اکٹھے کرتے اور پھر سجدہ کرتے"۔سید علی طباطبائی نے کہا "اس حدیث سے نماز کے جائز ہونے پر استدلال کرنے کی کوئی مناسب وجہ موجود نہیں ہے ۔کیونکہ کہاں مصلے کے سامنے عورت کا سونا اور کہاں عورت کا نماز پڑھنا ؟ ہاں اگر حدیث میں حضرت عائشہ کے نماز پڑھنے کا ذکر ہوتا تو اس حدیث سے استدلال کرنا صحیح تھا ۔"
آپ نے کہا: ان فقہا کی دلیل جواز ہو سکتا ہے قیاس اولویت ہو چونکہ حالت حیض میں مصلے کے سامنے سونے کی نسبت عورت کا نماز پڑھنا زیادہ اولویت رکھتا ہے ۔ آیت اللہ سید علی طباطبائی نے اس توجیہ کو قبول کیا اور آپ کیلئے تعریفی کلمات بیان کئے۔
مشہد میں آیت اللہ مرزا محمد مہدی اصفہانی کے درس میں یہ مسئلہ پیش آیا کہ جس شخص کے پیٹ کے شکن آپس میں ملے ہوئے ہوں تایسے شخص کو غسل ارتماسی میں چاہئے کہ وہ اس حصے سے جسم کو جدا کرے اور پھر وہاں پانی پہنچائے۔آقای اصفہانی یا کسی دوسرے نے اس مسئلے میں یوں دقت فرمائی کہ جب وہ شخص پیٹ کے شکم کو ہاتھوں سے جدا کرے گا تو اس کی وجہ سے پانی کی حرکت کے درمیان لحظہ کیلئے انفصال زمانی متحقق ہو گا ۔
آپ نے کہا:قاعدۂ کلیہ ہے کہ جس طرح انطباق آنی ہوتا ہے اسی طرح انفصال بھی آنی ہوتا ہے اور ہر وہ چیز جو حرکت سے حاصل ہوتی ہے وہ زمانی ہو گی پس جب انفصال بھی حرکت سے ہوگا تو خواہ نخواہ وہ بھی زمانی ہی ہو گا ۔حضرت آیت اللہ سید علی طباطبائی نے آپ کی اس دلیل کو قبول فرمایا(10)
اولادخدائے ذو الجلال اکرام نے آپ کو پانچ فرزند عطا کئے جن کے اسما درج ذیل ہیں:

سلطان العلما آیت اللہ سید محمد معروف رضوان مآب(1199 ھ-1284ھ)
سید علی(1200ھ-1259ھ)
سید حسن.(1205ھ-1260).
سید مہدی۔ آپ کی ندگی میں ہی 23 سال زندگی کر کے فوت ہوئے۔
آیت اللہسید حسین علیین.(1211ھ-1273ھ))11(
اساتذہ
برصغیر پاک و ہند
آپکے شاگردوں کے بیان کئے گئے احوال سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ نے ہندوستان کے فاضل علما سے علوم عقلیہ حاصل کئے جن کے اسما درج ذیل ہیں:

سید غلام حسین حسینی دکنی الہ آبادی: آپ کے اساتذہ میں سے ہیں جن سے آپ نے اکثر درسی کتب پڑھیں۔
مولوی حیدر علی سندیلوی: شرح تصدیقات سلّم العلوم معروف بہ حمد اللہ اس کے پاس پڑھی ۔مولوی حیدر علی 1225ھ کے رجب میں فوت ہوا۔
مولوی باب اللہ:کچھ درسی کتابیں مولوی حمد اللہ کے شاگرد مولوی باب اللہ کے پاس پڑھیں۔غلام حسین حسینی دکنی کی وفات کے بعد بریلی آئے اور یہاں باب اللہ کے پاس پڑھا۔
خود فرماتے ہیں کہ میں نے ہندوستان میں رائج دروس نظامی اور عقلی علوم جن علما سے حاصل کئے وہ اکثر مذہبی لحاظ سے حنفی اور عقیدتی لحاظ سے ماتریدی مکتب فکر سے تعلق رکھتے تھے ۔

ایران و عراق
پاک و ہند کے مدارس میں رائج درس نظامی کی کتب اور علوم عقلیہ میں ید طولی پیدا کرنے کے بعد عتبات عالیہ کی زیارت کے لئے عازم سفر ہوئے اور وہاں جن اساتذہ سے علم حاصل کیا :

آیت اللہ محمد باقر بہبہانیمشہور وحید بہبہانی:شیخ طوسی کی استبصار کا کچھ حصہ اور رسالۂ فوائد حائریہ دور حاضر کے مرجع آیت اللہ باقر محمد بہبہانی کے سامے قرآت کیا اور ان کے درس میں شریک ہوئے۔
آیت اللہ مولانا سید علی طباطبائی: شرح مختصر نافع یعنی شرح کبیر کو آیت اللہ مولانا سید علی طباطبائی سے سنا۔
سید محمد مہدی بن ابی القاسم شہرستانی:کربلا میں ان سے بھی استفادہ کیا۔
آیت اللہ سید محمد بن مرتضی یعنی مہدی طباطبائی:نجف میں مولائے متقیان کی زیارت اور آیت اللہ سید محمد بن مرتضی یعنی مہدی طباطبائی کی مکہ سے واپسی پر نجف میں الوافی اور معالم الاصول کی ان کے سامنے قرآت کی ۔
1194 ھ میں عراق کی زیارتوں کے بعد مشہد زیارت کیلئے آئے۔
سید مہدی بن ہدایت اللہ اصفہانی:مشہد میں ان سے علوم معقول و منقول کا استفادہ کیا۔
شاگردانسید احمد علی محمد آبادی
سید محمد بن محمد حامد کنتوری معروف سید محمد قلی
مرزا فخر الدین احمد خان مشہور میرزا جعفر
سید یاد علی مؤلف تفسیر قرآن در زبان فارسی
میر مرتضیٰ مؤلف اسرار الصلات و اوزان شرعیہ۔
مرزا محمد خلیل۔
سید غلام حسن۔
سید محمد باقر واعظ
سید شاکر علی ۔
سید علی ۔
سید نظام الدین حسین (مرحوم)۔
مرزا جواد علی ۔
مرا علی شریف خان۔
سید مرتضی
مرزا محمد رفیع غافل معروف مرزا مغل
سید علی اصغر بن سید بہاؤ الدین
حکیم مرزا علی
سید حمایت حسین کنتوری معروف میر علی بخش۔
مرزا اسماعیل۔
مرزا محمد علی۔
سید سجاد علی جائسی۔
سید احسنان علی ۔
میر کاظم علی ۔
مرزا زین الدین احمد خان بہادر معروف مرزا محسن
سید اعظم علی ۔
علی نقی قزوینی۔
مولوی سید علی نقی۔
(13)آفرین علی خان
پاک و ہند کی تشیع کا اہم موڑ
اخباری عالم دین محمد امین استر آبادی کی کتاب الفوائد المدنیہ کے بر صغیر میں آنے اور یہاں دیگر اصولی کتب کی عدم دستیابی کی وجہ سے پاک و ہند کی شیعیت میں اخباریت رائج تھی لہذا اسی سبب سے آپ بھی ابتدائی طور پر اخباری تھے اور ایران و عراق کی زیارات پر جانے سے پہلے تک اس مسلک کے عقائد و نظریات پر کار بند رہے ۔

بصرہ سے نجف جاتے ہوئے راستے میں ایک عرب سے ملاقات ہوئی ۔اسکے ساتھ اخبار و اصول کے موضوع پر بات ہوئی تو آپ اخباریت اور عرب مکتب اصول کی نمایندگی کرتا رہا یہانتک کہ اس نے نجف میں آیت اللہ جعفر کاشف الغطا کو اس کی خبر دی ۔غفران مآب نجف میں آیت اللہ سید محسن بغدادی سے ملے تو ہند میں اخباریت کے رواج کے سبب کی بات کی ۔انہوں نے وہان کی اخباریت کے رواج کا سبب امامیہ مکتب کی علم اصول کی کتب سے اطلاع نہ رکھنا بیان کیا اور فوائد مدنیہ کے رد میں نور الدین عاملی کی کتاب الشواہد المکیہ مطالعے کیلئے سید دلدار علی کو دی۔اسکے مطالعے سے بھی تشفی نہ ہوئی۔

آیت اللہ جعفر کاشف الغطا سے ملاقات کے دوران حجیت خبر واحد کے متعلق بات ہوئی لیکن پھر بھی مطمئن نہ ہوئے۔دوبارہ آیت اللہ سید محسن بغدادی سے ملاقات کے دوران کہا کہ اصولیوں کے پاس اس بات پر کیا دلیل کہ تمام علمااگر کسی مسئلے میں باطل پر اجماع کر لیں تو کیوں امام زمانہ پر واجب ہے کہ حق کو ظاہر کریں؟آیت اللہ سید محسن بغدادی نے کہا ان کے پاس معصوم کی حدیث ہے جس کی بنا پر وہ قائل ہیں۔یہ سن کر خاموشی اختیار کی ۔کربلا پہنچ کر خود اس معاملے کی تہہ تک پہنچنے کا ارادہ کیا اور دونوں مکتبوں کا مطالعہ شروع کیا جس میں امین استرآبادی کی بعض خطاؤں پر متوجہ ہوئے۔آہستہ آہستہ حقائق جاننے کے بعد اصولیوں کے متعلق موجود دغدغہ ختم ہوا او اصولی مسلک کی حقانیت کو جان گئے ۔ لکھنؤ واپسی پر سب سے پہلے اساس الاصول کے نام سے فوائد مدنیہ کا ایسا استدلالی جواب لکھا کہ بہت عرصے تک کسی اخباری میں اس کا جواب لکھنے کی ہمت نہ ہوئی ۔اساس الاصول نے ہند میں رواج پیدا کیا اور مدارس میں اسے پڑھایا جانے لگا۔اس طرح لکھنؤ اور اس کے گردو نواح میں اخباریت کا خاتمہ ہوا اور اصولی مکتب یہاں رائج ہوا ۔

دور دور تک آپ کی شہرت ہوئی تو مرزا محمد اکبر آبادی (ہندی) اخباری(1233ہ) نے اساس الاصول پر معاول العقول لقطع اساس الاصول کے نام سے بہت ہی سخت لہجے میں حاشیہ لگایا جسے قلع الاساس (12)کے نام سے بھی جانا جاتا ہے،کو لکھنؤ بھیجا۔آپ کے شاگردوں نے مطارق الحق و الیقین لکسر معاول الشیاطین کے نام سے اس کا جواب لکھا ۔


آئینۂ حق نما کے بقول 1231ھ میں خاندان صفدری کی بدولت یہاں کے لوگ مذہب جعفریہ پر پابند ہیں اور پھر آیت اللہ سید دلدار علی کی عماد الاسلام، صوارم الہیات،ذوالفقار وغیرہ تالیفات کی بدولت اس خطے میں اکثر شیعیان مذہب حنفیہ کی عدم حقانیت سے آگاہ ہو چکے تھے اور لکھنؤ اور فیض آباد جیسے شہر ایران و خراسان کی مانند قابل رشک تھے۔
سید دلدار علی کا زمانہآیت اللہ سید دلدار علی کی دینی خدمات کی صحیح قدر و قیمت کا اندازہ اس صورت میں لگایا جا سکتا ہے جب ہم اس زمانے کے حالات سے کسی حد تک واقف ہوں ۔اس دور کا تذکرہ کرتے ہوئے آئینۂ حق نما میں مذکور ہے:

اس زمانے میں پاک و ہند کے مسلمان عمدتا تین اصناف پر مشتمل تھے:-
پہلی صنف:اہل تصوف کی تھی کہ جن کی بہت بڑی تعداد مذہب حنفی سے وابستہ تھی اور اس طائفے میں تو شیعہ حضرات برای نام ہی تھے ۔یہ لوگ نظریہ وحدت الوجود کے قائلین اور کشف و کرامات کے مدعی تھے۔
دوسری صنف:اہل سنت حضرات میں سے حنفی المذہب کی تھی جو شروع سے ہی حاکمان وقت کی وجہ سے تعداد کے لحاظ سے ہمیشہ اکثریت میں رہے ۔اس دور میں شیعہ حضرات کا اپنے مذہب سے دوری کا یہ عالَم تھا کہ وہ اپنی اکثر مذہبی عبادات صوم و صلات وغیرہ اور معاملات مثلا نکاح و طلاق وغیرہ حنفی تعلیمات کے مطابق انجام دیتے اور یہ صورتحال 1231ھ ق تک باقی رہی ۔
تیسری صنف:آیت اللہ سید دلدار علی کے اصولی مسلک اختیار کرنے سے پہلے برصغیر میں تشیع کی عمومی فضا پر اخباریت کی فضا قائم تھی ۔
آئینۂ حق نما کے بقول 1231ھ میں خاندان صفدری کی بدولت یہاں کے لوگ مذہب جعفریہ پر پابند ہیں اور پھر آیت اللہ سید دلدار علی کی عماد الاسلام، صوارم الہیات،ذوالفقار وغیرہ تالیفات کی بدولت اس خطے میں اکثر شیعیان مذہب حنفیہ کی عدم حقانیت سے آگاہ ہو چکے تھے اور لکھنؤ اور فیض آباد جیسے شہر ایران و خراسان کی مانند قابل رشک تھے۔

لوگوں میں مذہب تشیع کے رسوخ کا سبب حقیقت میں آیت اللہ سید دلدار علی نقوی کی علمی اور تبلیغی خدمات ہیں۔
دینی خدماتآیت اللہ سید دلدار علی نے زیارات سے واپسی پر تبلیغ دین کا کام درس و تدریس اور مؤمنین کو درس تبلیغ کی صورت میں شروع کیا ۔مؤمنین کی تبلیغ کا کام ابتدا میں ہر ہفتہ ایام کی مانسبت سے تبلیغ دین کے فرائض انجام دیتے اور پھر نماز جمعہ کے شروع ہونے کے بعد یہ تبلیغ دین مستقل طور پر شروع ہوئی۔آپ ہر نماز جمعہ کے بعد تبلیغ دین کرتے جس میں مذہب صوفیت کی بدعات کی قباحتیں اور دوسرے مسائل بیان کئے جاتے ۔ اس تبلیغ کی برکات سے صوفیت کی صوت و غنا کی محفلوں میں بہت زیادہ کمی واقع ہوئی ۔یہ تبلیغی تقاریر اکثر اپنی کتاب مواعظہ حسنیہ سے مزین ہوتیں ۔اس دور کے علما کہ جن میں آپ بھی شامل ہیں، کی دینی خدمات اور مذہب اہل بیت کی ترویجی خدمات کا اعتراف کرتے ہوئے تحفۂ اثنا عشریہ کے مقدمے میں تحفہ کے سبب تالیف بیان کرتے ہوئے مولوی عبد العزیز نے کہا: ہم ایسے دور سے گزر رہے ہیں کہ جس میں اثنا عشریہ کا غلغلہ اور شہرہ اتنا بڑھ گیا ہے کہ بمشکل کوئی ایسا گھر ہوگا جس میں کوئی نہ کوئی یہ مذہب اختیار نہ کر چکا ہو یا اس سے متاثر نہ ہوا ہو۔(14(
نماز جمعہ کا قیام
عتبات عالیہ کی زیارات سے واپسی پر لکھنؤ میں سکونت اختیار کی(ایک روایت کے مطابق آپ لکھنؤ سے ہی زیارات کیلئے گئے تھے) ۔ یہاں طلبہ اور مؤمنین کی تعلیم و تربیت میں مشغول ہوئے نیز اصولی اور فروعی مسائل کے متعلق نوشتہ جات بھی لکھنے شروع کئے جس میں اساس الاصول اور دیگر تالیفات شامل تھیں۔ اسی دوران اہالیان لکھنؤ نے مذہب اہل بیتؑ کی ترویج کیلئے آپ کی تحریری کاوشوں کی نشر و اشاعت کا ارادہ کیا اور آپ سے اس شہر میں نماز جمعہ کے اقامہ کی درخواست کی ۔جسے آپ نے اصرار کے بعد قبول کیا ۔اس سے پہلے آپ امام زمانہ کی غیبت میں نماز جمعہ کے اثبات کو آئمہ طاہرین کی تعلیمات کی روشنی میں تحریری صورت میں لکھ چکے تھے ۔اس کار خیر کے موجب نواب شجاع الدولہ کے فرزند نواب آصف الدولہ،نواب مرزا حسن رضا خان،ملا محمد علی فیض آبادی اور علی اکبر صوفی بنے۔1200 ھ ق کے ماہ رجب کی تیرھویں (13) تاریخ کو وزیر اعظم حسن رضا خان کے محل میں پہلی نماز جماعت ظہرین پڑھی گئی اور رجب کی ستائیسویں(27) تاریخ کو لکھنؤ میں مذہب شیعہ کی پہلی نماز جمعہ آیت اللہ سید دلدار علی نقوی کی اقتدا میں پڑھی گئی ۔(15)
تحریری خدماتیوں تو آپ نے شروع سے ہی تحریری کی صورت میں مذہب اہل بیت کی تبلیغ اور دفاع کا کا کام شروع کر دیا تھا لیکن زیارات سے واپسی کے بعد آپکی تالیفات کی تعداد میں قابل توجہ اضافہ ہوا۔ آپ کی تحریر خدمات میں درج ذیل کتابوں کے نام مذکور ہیں :-

مواعظہ حسنیہ:یہ کتاب اخلاقیات پر مشتمل فارسی زبان میں لکھی گئی ہے ۔
شہاب ثاقب: یہ کتاب مذہب صوفیت کے باطل نظریات خاص طور پر نظریۂ وحدت الوجود کے رد میں دلائل عقلیہ اور نقلیہ سے مرتب ہے ۔
منتہی الافکار (علم اصول فقہ)
حاشیہ ملا حمد اللہ شرح سلم العلوم۔
اجازۂ مبسوطہ بہ حق سلطان العلماء۔
حاشیہ شرح ہدایۃ الحکمہ ملا صدر الدین شیرازی۔
اساس الاصول: یہ کتاب زیارات سے واپسی کے بعد جب اصولی مکتب اختیار کیا تو اسے تحریر کیا جس میں شرعی ادلہ اربعہ پر عقلی اور شرعی دلائل کے ساتھ استدلال کیا گیا ہے نیز اس کتاب میں محمد امین استر آبادی کے بہت سے نظریات کا رد مذکور ہے ۔ یہ کتاب بہت سے نئے مطالب پر مشتمل ہے ۔
الوصیحۃ و النصیحۃ (وصیت نامۂ غفران ماب):آیت اللہ سید دلدار علی نقوی نے اپنے بیٹے آیت اللہ سید محمد معروف رضوان مآب کو وصیتنامہ لکھا جو حقیقت میں ایک اخلاقی موعظہ حسنہ ہے(16) ۔
شرح حدیقۃ المتقین (شرح باب الصوم اور باب الزکات)۔ یہ کتاب تین جلدوں پر مشتمل ہے۔اس کتاب میں مذکورہ ابواب کے علاوہ کچھ حصہ کتاب الطہارہ کا بھی شامل ہے۔
مرآۃ العقول معروف بنام عماد الاسلام: یہ کتاب فخر الدین رازی کی کتاب نہایۃ العقول فی درایۃ الاصول کا جواب ہے جسے رازی نے اشاعرہ عقیدے کے دفاع میں تصنیف کیا۔آیت اللہ سید دلدار علی نے اس کتاب کو 5 جلدوں:توحید ،عدل، نبوت، امامت، قیامت، میں مرتب کیا ۔ اسکے تمام باطلہ نظریات کو عقلی اور قرآن و سنت کی ادلہ کے ساتھ رد کیا ہے ۔اس کتاب کے متعلق خود لکھتے ہیں یہ کتاب علوم کثیرہ،تحقیقات انیقہ،مباحث دقیقہ پر مشتمل ہے۔اس کتاب کو بعض سادات کے ہاتھوں مولوی عبد العزیز دہلوی کے پاس بھیجا اگرچہ وہ ایک مدت تک زندہ رہا لیکن اس نے اپنے مذہب کے دفاع میں کچھ نہیں لکھا ۔
صوارم الالہیات فی قطع شبہات عابدی العزی و اللات معروف صوارم الٰہیات: یہ کتاب مولوی عبد العزیز دہلوی کی کتاب تحفہ اثنا عشریہ کے باب توحید کے جواب میں میں لکھی گئی ہے۔اس کتاب کو لکھنے کے بعد آیت اللہ دلدار علی نے بعض معظم سادات کے توسط سے عبد العزیز دہلوی کے پاس بھیجا لیکن کتابیں حاصل کرنے کے بعد زندہ رہنے کے باوجود اپنے مذہب کے دفاع میں لکھنے سے عاجز رہا۔
حسام الاسلام: یہ کتاب مولوی عبد العزیز دہلوی کی تحفۂ اثنا عشریہ کے باب نبوت کا جواب ہے ۔صوارم اور حسام الاسلام 1218 ھ میں یہ 500 کی تعداد میں لکھنؤ سے چھپی۔یہ کتاب بھی اسے پہنچائی گئی لیکن اس نے جواب نہیں دیا ۔
خاتمۂ صوارم: یہ کتاب مولوی عبد العزیز کی کتاب کی بحث امامت کا جواب ہے لیکن یہ صوارم کے ساتھ چاپ نہیں ہوا ۔
کتاب احیاء السنۃ: یہ کتاب بھی مولوی عبد العزیز دہلوی کی کتاب تحفہ کے باب معاد اور اس کے متعلقات کا جواب ہے ۔
ذوالفقار: یہ کتاب تولا اور تبرا کے موضوع کے متعلق لکھی گئی جو تحفۂ اثنا عشریہ کے بارھویں باب کا جواب ہے ۔1218 ھ سے 5یا 6 سال پہلے لکھی اور اسے عماد الاسلام کے ہمراہ مولوی عبد العزیز دہلوی کے پاس بھیجا۔
رسالۂ غیبت: مولوی بعد العزیز دہلوی کے امام زمانہ کی نسبت اعتراضات کا جواب ہے ۔
رسالۂ جمعہ: اس رسالے کو نماز جمعہ کے اقامے سے پہلے تحریر کیا اور اس میں غیبت امام زمانہ میں نماز جمعہ کی جماعت کے قیام کو ادلہ واضحہ کے ساتھ بیان کیا ۔
مولوی صوفی محمد سمیع کے جواب میں صوفیت کے رد میں رسالہ تحریر کیا۔
مسکن القلوب: انبیائے کرام ، آئمہ معصومین علیہم السلام اور بعض علمائے حقہ کی مشکلات کے متعلق 1231 ھ کے ماہ ذی الحجہ کے آخر میں اپنے فرزند سید مہدی کی وفات کے بعد میں لکھا ۔
رسالۂ ارضین: اس نام سے معروف ہندوستان میں ہندؤں اور دیگران کے ساتھ املاک و دیگر معاملات کے مسائل کے متعلق رسالہ لکھا ۔ یہ رسالہ رسائل ارضیہ کے نام سے مشہور ہوا۔ اس کا سن تحریر 1264 ھ ہے۔
رسالۂ ذہبیہ: اس میں سونے اور چاندی کے برتنوں سے متعلق احکام بیان ہوئے ہیں۔
اثارۃ الاحزان در احوال شہادت امام حسین علیہ السلام:اس احوال شہادت امام حسین علیہ السلام مذکور ہیں۔
تعمیری خدماتایران و عراق کی زیارتوں سے واپسی ہر نصیر آباد میں ایک مسجد کی تعمیر کروائی۔(17)

لکھنؤ میں ایک امام بارگاہ کی تعمیر مذہبی ترویج کے آثار میں شمار کیا جاتا ہے جو بعد میں امام باڑہ غفران مآب کے نام سے مشہور ہوا ۔اسکی تعمیر اول کا کام 1227ھ میں انجام پایا اور آپ کو اسی امام بارگاہ میں دفن کیا گیا ہے(18) ۔ نیز کئی دوسرے امام بارگاہوں کا سنگ بنیاد رکھا ۔

امام باڑہ سید دلدار علی غفران مآب (لکھنؤ)
وفاتاودھ کے حاکم غازی الدین حیدر شاہ کی حاکمیت کے دوران 1235 ھ کے ماہ رجب کی 19 ویں شب کو لکھنؤ میں اس دار فانی کو صدائے حق کی آواز پر لبیک کہا ۔آپ کی مرقد مبارک لکھنؤ شہر میں آپ کے تعمیر کردہ امام بارگاہ دار التعزیہ میں ہے جسے امام بارگاہ یا امام باڑہ غفران مآب کہتے ہیں اور یہ مشہور امام بارگاہ باقر مرحوم کے پاس واقع ہے۔

حوالہ جات
(1)محسن امین عاملی ،اعیان الشیعہ6/425۔
(2) محسن امین عاملی ،اعیان الشیعہ6/425۔
(3)سید احمد نقوی، ورثۃ الانبیاء،500۔
(4) بائیو گرافی سید دلدار علی
(5) احمد نقوی معروف بہ علامہ ہندی ،ورثہ الانبیاء حصۂ تذکرۃ العلماء ص239۔
(6) محسن امین عاملی ،اعیان الشیعہ6/425۔
(7) احمد نقوی معروف بہ علامہ ہندی ،ورثہ الانبیاء حصۂ تذکرۃ العلماء ص242۔
(8) ورثۃ الانبیا حصہ تذکرۃ العلماء ص239۔
(9) حسن نجفی ،جواہر الکلام ،8/کراہۃ الصلاۃ مع تقدم المراۃ..../305و306۔محقق بحرانی ،الحدائق الناضرہ7/ہل یجوز تساوی الرجل/177و 178
(10) آئینۂ حق نما۔صص
(11) احمد نقوی، ورثۃ الانبیاء52
(12) بزرگ تہرانی، الذریعہ، ج۱۷، ص۱۶۶.
(13) احمد نقوی لکھنوی معروف علامہ ہندی،ورثۃ الانبیاءصص53/54۔
(14)مولانا خلیل الرحمان نعمانی،تحفۂ اثنا عشریہ(اردو) ص23۔
(15) نماز جمعہ کی تفصیل کیلئے دیکھیں ورثۃ الانبیاء صص252و253...
(16) وصیت نامہ
(17) احمد نقوی،ورثہ الانبیاء41
(18) احمد نقوی،ورثہ الانبیاء41
مآب پر موجود کتب کتب کے صفحہ پر جانے کے لئے یہاں کلک کریں
سوشل میڈیا پر شئیر کریں: